رسائی کے لنکس

حکومت کا عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے اور تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان


  • وفاقی حکومت نے تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
  • پی ٹی آئی کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جس بنا پر اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے: وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ
  • عمران خان، سابق صدرِ پاکستان عارف علوی اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کا اعلان
  • وفاقی حکومت نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِثانی اپیل دائر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے: عطا تارڑ

حکومت نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت نے عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کیس دائر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے پیر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کی کابینہ سے منظوری کے بعد معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھیجا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے خلاف ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جس بنا پر اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور پی ٹی آئی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ کیس، نو مئی کے واقعات، سائفر کے استعمال سے بین الاقوامی تعلقات متاثر کرنے اور پارٹی کی ملک مخالف سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کارروائی کی جائے گی۔

’آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘

دوسری جانب تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ جو لوگ تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں وہ کسی اور ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔

'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے علی ظفر کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے حکومت کو جو صدمہ ہوا ہے اس کے بعد وہ ایسی ناجائز باتیں کر رہے ہیں۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کے فیصلے پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور وزیرِ اطلاعات سندھ شرجیل میمن کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی 'انتہا پسندانہ' پالیسیوں کی وجہ سے آج تحریکِ انصاف کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان اس صورتِ حال کے ذمے دار ہیں۔

جماعتِ اسلامی امیر حافظ نعیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کا حکومتی فیصلہ 'فسطائیت' کی مثال ہے۔

ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں ایسے فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا ردِعمل

(ایچ آر سی پی) نے حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اعلان کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

کمیشن کے چیئرمین اسد اقبال بٹ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلہ نہ صرف جماعت سازی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 17 کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ جمہوری اقدار کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اعلان ایسے وقت کیا جارہا ہے جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔

ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اپنا غیر آئینی فیصلہ واپس لے بصورت دیگر اس اقدام کی صورت میں سوائے سیاسی کشیدگی میں اضافے اور انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنے بیان میں حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، عسکریت پسندی اور جرائم کی شرح پر اپنی توجہ مرکوز کرے جس کے لیے اسے سیاسی اتحادیوں اور حریفوں دونوں کی مدد درکار ہو گی۔

مخصوص نشستوں کا کیس؛ نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان

وفاقی حکومت نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحادیوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ درخواست میں قانون سقم سمیت دیگر سوالات اٹھائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ جو جماعت عدالت کے سامنے فریق ہی نہیں تھی اسے کیوں ریلیف دیا گیا۔ آئین کی تشریح کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے لیکن کیا آئین میں ترمیم کا اختیار قومی اسمبلی کو نہیں ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو کثرتِ رائے سے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھنے کے فیصلے کو کالعدم کردیا تھا۔

سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ میں سے آٹھ ججز نے اپنے فیصلے میں تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG