رسائی کے لنکس

امریکی انتخابات: بھارتی امریکی ووٹر اس سال ووٹنگ کے لیے اتنے پرجوش کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • بھارتی امریکی کمیونٹی، امریکہ میں میکسیکو کے باشندوں کے بعد تارکینِ وطن ووٹروں کا دوسرا بڑا گروپ
  • سال 2020میں پنسلوینیا میں جنوبی ایشیائی امریکی رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 70% سے زیادہ نے ووٹ ڈالا۔
  • کمیونٹی میں اوشا وینس کے ملک کی پہلی بھارتی نژاد امریکی خاتونِ دوم بننے کے امکان کے بارے میں بات ہو رہی ہے
  • بھارتی امریکی، امریکہ میں تارکینِ وطن کی تیزی سے پھیلتی ہوئی کمیونٹی جس میں 1990 کی دہائی کے بعد دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
  • بھارت کے ہندو قوم پرست وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ٹرمپ کے قریبی تعلقات کا اثر سابق صدر کے ووٹوں پر نظر آئے گا: ریپبلیکن سرگرم کارکن۔

ویب ڈیسک۔امریکی نائب صدر کاملا ہیرس کے ڈرامائی طور پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ پر سرِ فہرست آنے سے بہت سے بھارتی نژاد امریکیوں میں ایک قوت پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کمیونٹی کا سیاسی کردار تیزی سے بڑھا ہے اور بڑے پیمانے پر جوش پیدا ہوا ہے۔

ہیرس کا تعلق بھارت اور جمیکا سے ہے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اتوار کو صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانے کے بعد پہلی ایسی خاتون صدارتی امیدوار بن سکتی ہیں جو سفید فام نہیں ہیں۔ مگر یہ جوش و خروش صرف ان کی نامزدگی کے لیے نہیں ہے۔

کئی بھارتی امریکی بلا لحاظ سیاسی جھکاؤ، یکساں طور پر دیگر بھارتی نژاد معروف شخصیات کے قومی سطح پر ممتاز نظر آنے پربہت پر جوش ہیں۔ان میں اوشا وینس ہیں جو نائب صدر کے ریپبلکن امیدوار جے ڈی وینس کی اہلیہ ہیں اس کے علاوہ نکی ہیلی اور وویک راماسوامی۔

شیکر نرسمہان ایک super PAC یعنی ایک بڑی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کے بانی اور چئیر ہیں جن کی توجہ ایشیائی امریکیوں اور بحر الکاہل کے جزیرے کے باسیوں کو متحرک کرنے اور ڈیمو کریٹک امیدواروں کی حمایت کرنے پر ہے۔

 بائیڈن کا صدارتی نامزدگی کے لیے کاملا ہیرس کی حمایت: بھارتی شہریوں کا ردعمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:47 0:00

نرسمہان یاد کرتے ہیں کہ جب بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے کی خبر آئی تو وہ 130 لوگوں سے فون پر بات کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں،" ہر چیز کی لائٹ جل اٹھی، واقعتاً، چیٹس، ڈی ایمز، فونز۔ لیکن اس سب میں جوش تھا، حیرانی نہیں تھی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، ایسا تھا کہ اوہ خدایا۔۔آئیے یہ زندگی کا بڑا موقع ہے کہ ہم اپنی طاقت دکھا سکیں۔"

یہ جوش وخروش سیاسی سطح پر ہے۔ نیو جرسی ریپبلکن پارٹی کے ساؤتھ ایشیا کوایلیشن کی شریک بانی پریتی پانڈیا پٹیل کہتی ہیں کہ کمیونٹی میں اوشا وینس کے ملک کی پہلی بھارتی نژاد امریکی خاتونِ دوم بننے کے امکان کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں،" یہ ایک قابلِ فخر لمحہ ہے اپنی کمیونٹی کو واقعتاً نمایاں دیکھنے کا۔ میرا خیال ہے اس سے ہماری بھارتی کمیونٹی یقیناً بہت خوش ہے۔"

امریکی انتخابات: ہیرس کی انتخابی مہم بائیڈن وائٹ ہاؤس میں واپس
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:03 0:00

بھارتی امریکی، امریکہ میں تارکینِ وطن کی تیزی سے پھیلتی ہوئی کمیونٹی ہیں جس میں 1990 کی دہائی کے بعد دس گنا اضافہ ہوا ہے۔

آج امریکہ میں اندازہً پچاس لاکھ لوگ بھارتی نژاد ہیں۔ اور یہ ایشیائی امریکی آبادی کا سب سے بڑا اور میکسیکنز کے بعد تارکینِ وطن کا دوسرا بڑا گروپ پے۔

اگرچہ بھارتی امریکی دیگر کسی بھی ایشیائی امریکی گروپ کی نسبت ڈیمو کریٹس کو سب سے زیادہ ووٹ دیتے ہیں تاہم ان میں لگ بھگ 20% خود کو ریپبلیکن بھی کہتے ہیں۔

روایتی طور پر بھارتی امریکی کمیونٹی دوسری کمیونیٹیز کی نسبت سیاسی طور پر کم فعال خیال کی جاتی ہے۔ تاہم کمیونٹی کے اندر سیاسی سرگرمی کے آثار موجود ہیں۔

ایشیائی امریکیوں کے ایک حالیہ سروے میں جس میں بھارتی نژاد لوگوں سے بات کی گئی، 90% بھارتیوں نے کہا کہ وہ نومبر کے الیکشن میں ووٹ دینا چاہتے ہیں حالانکہ ان میں سے 42% سے پارٹی یا کسی امیدوار نے رابطہ نہیں کیا۔

امیریکن ہندو کو ایلیشن ایک نان پارٹیسن تنظیم ہے۔ اس کی شریک بانی اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹر سوہاگ شکلہ کہتی ہیں، " چنانچہ اس سے رابطوں میں ممکنہ خلا ظاہر ہوتا ہے۔"

شکلہ نے کہا کہ انتخابات، بھارتی۔ امریکی کمیونٹی اور دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کرتے ہیں۔

امریکی انتخابات
ٹرمپ انتخابی مہم کی
ہیرس پر تنقید کی تیاریاں
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:11 0:00

وائس آف امیریکہ سے ایک انٹرویو میں شکلہ نے امریکی صدارتی انتخاب میں بیٹل گراؤنڈ ریاستوں یعنی ان ریاستوں کا جہاں سخت مقابلہ ہے، ذکر کرتے ہوئے کہا، " میرا خیال ہے بھارتی امریکیوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چاہئیے کیونکہ ہم میں سے بہت سے پرپل اسٹیٹس یا پرپل ڈسٹرکٹس میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف میرا خیال ہے کہ یہ پارٹیوں کے لیے موقع ہے کہ وہ صرف ہاں یا ناں کے چیک مارک کو نہ دیکھیں بلکہ صحیح معنوں میں رابطے کریں۔ ٹاؤن ہال میٹنگز بلائیں۔ لوگوں کی بات سنیں۔"

ہیرس اور ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمانوں نے کمیونٹی میں رابطوں کی کوششوں کے بارے میں سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

دونوں کی انتخابی مہم عوامی سطح کی تنظیموں کے ذریعے ووٹروں کو تحریک دلاتی ہے۔

دیپا شرما ساؤتھ ایشئینز فار ہیرس کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور آئندہ ماہ ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن کے لیے ڈیلیگیٹ بھی۔ وہ کہتی ہیں ان کا گروپ، " ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو دروازوں پر دستک دیں گے، فون کریں گے اور اس کمیونٹی سے رابطے کریں گے۔"

کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے 2020 کے ایک مطالعے کے مطابق امریکہ کے رجسٹرڈ ووٹروں میں بھارتی امریکی ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ لیکن ان میں سے تقریباً ایک تہائی ، جارجیا، نارتھ کیرولائنا اور پنسلوینیا جیسی سخت مقابلے والی ریاستوں میں رہتے ہیں۔

امریکی انتخابات: غیر قانونی تارکینِ وطن بےدخل یا محفوظ؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:55 0:00

چنانچہ ایک ترقی پسند گروپ انڈین امیریکن امپیکٹ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر چنتن پٹیل کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس پوزیشن میں ہیں کہ نومبر کے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکیں۔

پٹیل کہتے ہیں،"ان ریاستوں میں جنوبی ایشیائی آبادی کی تعداد الیکشن میں سخت ترین مقابلوں میں جیت کے مارجن سے کہیں زیادہ ہے۔

پٹیل کہتے ہیں اس سال ہیرس کی حمایت میں اضافے کا امکان ہے۔ 2020 میں بائیڈن۔ ہیرس ٹکٹ کو بھارتی امریکیوں کے 70%ووٹ ملے تھے۔

پٹیل نے کہا۔" انہیں جنوبی ایشیائی امریکی کمیونٹی کی خاصی حمایت ملی ہے کیونکہ وہ مسلسل ہماری اقدار اور مسائل کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔"

اس سال کے شروع میں ہیرس نے بھارتی امریکیوں کے گروپ،" دیسیز ڈیسائڈ" کی کانفرنس میں گفتگو کی جس میں انہوں نے 2020 اور 2021 میں دوڈیموکریٹک سینیٹرز کی کامیابی کو بھارتی امریکیوں اور ایشیائی امریکیوں کا مرہونِ منت قرار دیا۔

پٹیل نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ووٹ دینے والے جنوبی ایشیائی امریکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پروہ کہتے ہیں کہ 2020میں پنسلوینیا میں جنوبی ایشیائی امریکی رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 70% سے زیادہ نے ووٹ ڈالا۔

پٹیل نے کہا،"میرا خیال ہے کہ اس نومبر بھی وائٹ ہاؤس کے حصول میں یہ لوگ کردار ادا کریں گے۔"

بعض اوقات 'مسلم امیریکینز' جیسے گروپوں کی طرف سے اسی طرح کی پیش گوئیاں پوری نہیں ہوتیں۔

لیکن نرسمہان کہتے ہیں کہ ووٹرٹرن آؤٹ ووٹروں کو تحریک دلانے کی حکمت عملی کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ ووٹروں کو معلومات دینا اہم ہے۔

امریکی انتخابات: ڈاک سے ووٹنگ کتنی آسان؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:03 0:00

نرسمہان کہتے ہیں، " یہ کافی نہیں ہے کہ چونکہ آپ شہری ہیں اس لیے آپ ووٹ دے سکتے ہیں، بلکہ آپ کو ووٹر کے طور پر رجسٹر بھی کروانا ہو گا۔ آپ کو لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وقت سے پہلے ووٹنگ کی بنیادی باتیں کیا ہیں؟ غیر حاضری میں ووٹنگ کیا ہوتی ہے، پولنگ کیا ہے، پورے سسٹم کی رہنمائی ضروری ہے اور ہمیں یہ بنیادی علم فراہم کرنا ہوگا۔"

ریپبلکنز کے لئے سرگرم کارکن یقین سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے ہندو قوم پرست وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ٹرمپ کے قریبی تعلقات کا اثر سابق صدر کے ووٹوں پر نظر آئے گا۔

پانڈیہ پٹیل نیو جرسی میں ایک ریپبلکن سر گرم کارکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں،" ٹرمپ کا بھارت سے رویہ دوستانہ رہا ہے اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔"

یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ کے لیے بھارتی امریکیوں کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے

ایشیائی امریکی ووٹروں کے بارے میں رائے عامہ کے حالیہ جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ 29% بھارتی امریکی ٹرمپ کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چار سال پہلے کے مقابلے میں اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ فائل فوٹو
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ فائل فوٹو

ٹرمپ نے 2019 میں مودی کو ایک "سچا دوست" کہا تھا۔ ٹرمپ اور مودی نے ہیوسٹن میں ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کیا تھا جس میں 50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جن میں زیادہ تر بھارتی وزیرِ اعظم کے حامی تھے۔ اس " "ہاؤڈی مودی"ریلی میں ٹرمپ نے مودی کو امریکہ کے عظیم ترین، سب سے زیادہ وفا دار اور قابلِ بھروسہ دوستوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔

پانڈیہ پٹیل نے کہا کہ اس ریلی سے ٹرمپ کے لیے بھارتی امریکیوں کی حمایت میں اضافہ ہوا کیونکہ ان کی مودی سے دوستی ایک کلیدی وجہ ہے کہ بھارتی امریکی ان کی حمایت کرتے ہیں۔

امیریکن ہندو کو ایلیش کی شکلہ نے کہا کہ بعض بھارتی امریکیوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی، "ہندو دوست" نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے حال ہی میں بھارتی امریکیوں کی پارٹی سے وابستگی میں تبدیلی کی وضاحت ہو سکتی ہے۔

ایشئین امیریکن ووٹر سروے میں خود کو ڈیموکریٹس کہنے والے بھارتیوں کی تعداد 2020 میں 54% کے مقابلے میں 2024 میں کم ہو کر 47% ہو گئی ہے جبکہ ریپبلیکن پارٹی کے حامیوں کی تعداد 16% سے بڑھ کر 21% ہو گئ ہے۔

آننگ میتل ورجینیا میں ایک تبصرہ نگار ہیں جو اس سے پہلے ایوان کے سپیکر مائیک جانسن کے لیے کام کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں ہے بلکہ سیاسی رویوں کی تبدیلی ہے۔

میتل کہتے ہیں،"میرا خیال ہے ملک کا جھکاؤمجموعی طور پر ریپبلیکنز کی جانب ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ اس الیکشن میں شامل ہونے والے زیادہ بڑے مسائل ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG