رسائی کے لنکس

مودی کا صدر بائیڈن سے ٹیلی فونک رابطہ؛ 'بھارت اب یوکرین جنگ میں غیر فعال نہیں رہے گا'


  • بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صدر جو بائیڈن سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔
  • یوکرین میں امن و استحکام کی جلد واپسی کے بھارت کے مؤقف کا اعادہ کیا: وزیرِ اعظم نریندر مودی
  • وائٹ ہاؤس کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں بات چیت کے دوران پولینڈ اور یوکرین کے مودی کے دورے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا۔
  • اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کئی دہائیوں سے اقتصادی سطح پر ایک بڑی قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے: تجزیہ کار شیخ منظور احمد

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے یوکرین سمیت متعدد باہمی و عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔

مودی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں صدر بائیڈن سے رابطے دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یوکرین میں امن و استحکام کی جلد واپسی کے بھارت کے مؤقف کا اعادہ کیا۔ انھوں نے اپنے یوکرین دورے اور صدر دلودیمیر زیلنسکی سے ہونے والی بات چیت سے جو بائیڈن کو باخبر کیا۔

انھوں نے مذاکرات اور سفارت کاری کی مدد سے مسئلے کو حل کرنے اور امن و استحکام کے جلد لوٹنے میں بھارت کی مدد کی یقین دہانی کرائی۔

ان کے مطابق انھوں نے بنگلہ دیش کی صورتِ حال پر بھی تبادلۂ خیال کیا اور وہاں معمول کی صورتِ حال کی جلد از جلد بحالی اور خاص طور پر ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔

یاد رہے کہ مودی کی جانب سے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق یہ تیسرا بیان ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کیے جانے کے بعد نوبیل امن انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس سے بات چیت میں اس معاملے کو اٹھایا تھا۔

انھوں نے دوسری بار 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر لال قلعے کی فصیل سے کیے جانے والے خطاب میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل کی تھی اور اب تیسری بار صدر بائیڈن سے بات چیت میں انھوں نے اس مسئلے کو اٹھایا۔

یوکرین جنگ پر تبادلۂ خیال

لیکن وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں یوکرین کا ذکر تو کیا گیا البتہ بنگلہ دیش کے ایشو پر بات چیت کے سلسلے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں بات چیت کے دوران پولینڈ اور یوکرین کے مودی کے دورے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ستمبر میں منعقد ہونے والے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس پر بھی بات چیت کی۔

نئی دہلی کی بعض میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکی بیان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی ستمبر میں امریکہ کا دورہ اور اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ اجلاس 23-22 ستمبر سے شروع ہونے والا ہے۔ مودی 22 ستمبر کو امریکہ میں مقیم بھارتی تارکینِ وطن سے خطاب کر سکتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق توقع ہے کہ وزیر اعظم مودی 26 ستمبر کو ہونے والی جنرل ڈبیٹ میں حصہ لیں گے۔ بحیثیت صدر جو بائیڈن کا جنرل اسمبلی سے یہ آخری خطاب ہو گا۔

امریکہ میں صدارتی انتخاب سے قبل نریندر مودی کے ممکنہ امریکی دورے کو اہمیت کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہاں کسی بھی پارٹی کا صدر منتخب ہو امریکہ بھارت رشتوں میں مزید استحکام آنے کی امید ہے۔

سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کہتے ہیں کہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں بھارت کے ساتھ اچھے رشتے رکھنے کے حق میں ہیں۔ قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں بھی دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات رہے جو آگے بڑھتے رہے ہیں۔

'مودی کا دورۂ امریکہ اہم ہو گا'

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی نے گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس بار وہاں صدارتی انتخاب ہونے والا ہے اور صدر بائیڈن نے کئی مہینوں کے بعد پیر کو نریندر مودی سے بات کی۔

ان کے مطابق دونوں رہنماؤں میں یوکرین کے مسئلے پر تو تبادلۂ خیال ہوا ممکن ہے کہ غزہ کی صورت حال پر بھی تبادلۂ خیال ہوا ہو۔

ان کے مطابق مودی کے دورے کے قوی امکانات ہیں اور یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہو گا کہ امریکی صدر کے علاوہ دیگر ملکوں کے سربراہوں سے بھی ان کی بات چیت ہو گی۔

وہ کہتے ہیں کہ باہمی رشتوں میں اس وقت تھوڑی بہت تلخی پیدا ہو گئی تھی جب کینیڈا میں خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل ہوا اور کنیڈا کے صدر جسٹن ٹروڈو نے اس کے لیے براہ راست بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

بھارت نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ اس الزام کے بعد کینیڈا سے بھارت کے رشوں میں کشیدگی آ گئی۔ امریکہ نے بھارت سے کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات میں تعاون دے۔

نجر کے قتل کے بعد امریکہ میں مقیم خالصتانی رہنما گورپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کا معاملہ سامنے آیا۔ امریکہ نے پنوں کے قتل کی سازش سے متعلق شواہد بھارت کے حوالے کیے۔ اس معاملے نے بھی باہمی رشتوں کو متاثر کیا۔ تاہم مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات آگے بڑھتے رہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد جس طرح بھارت کی اہمیت عالمی فورموں پر بڑھی ہے اس کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت بین الاقوامی تنازعات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ مودی کے یوکرین کے دورے کے موقع پر بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار سی راجہ موہن نے اپنے تجزیے میں کہا تھا کہ اب بھارت روس یوکرین تنازع میں غیر فعال نہیں رہے گا۔

شیخ منظور احمد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کئی دہائیوں سے اقتصادی سطح پر ایک بڑی قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ اس کی معاشی طاقت میں اضافہ ہوا ہے تو عالمی امور میں اس کے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی اس نے کافی ترقی کی ہے۔

لیکن انھیں نہیں لگتا کہ وہ بڑے عالمی تنازعات میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت یوکرین جنگ اور غزہ کا معاملہ دو بڑے عالمی مسائل ہیں۔ لیکن بھارت نے شروع سے ہی ایک غیر جانبدار مؤقف اختیار کیا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی نے زیلینسکی سے مذاکرات کے دوران کہا تھا کہ بھارت غیر جانبدار نہیں ہے، وہ ہمیشہ امن کی جانب رہا ہے۔ تجزیہ کاروں نے اسے بھارت کی غیر جانبداری کو نئے الفاظ میں پیش کرنے اور سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازعات کو حل کرنے کے اس کے مؤقف سے تعبیر کیا تھا۔

زیلنسکی نے کہا تھا کہ بھارت کو غیر جانبدار نہیں بلکہ یوکرین کی جانب ہونا چاہیے۔

شیخ منظور احمد کے مطابق بھارت نے یوکرین کے مسئلے پر مغرب کے مؤقف کی حمایت نہیں کی اور روس پر پابندیوں کے باوجود وہ اس سے تیل خریدتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے روس سے 60 بلین ڈالر کا خام تیل سستے داموں پر خریدا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ بھارت کے رشتے کافی آگے تک جا چکے ہیں۔ گلوان وادی میں چینی پیش قدمی کے بعد ان تعلقات میں مزید وسعت آگئی ہے۔ اس کا مقصد چین کے بڑھتے اثرات کو روکنا ہے۔

ان کے خیال میں یوکرین اور غزہ کے معاملے میں بھارت ثالثی کرنا نہیں چاہتا۔ وہ اپنے دیرینہ مؤقف پر قائم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثالثی کی صورت میں بہت سخت فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور پھر ان کی پیروی بھی کرنی ہوتی ہے۔

ان کے بقول کشمیر کا معاملہ ہو یا چین کا، بھارت ہمیشہ ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرتا رہا ہے۔ لہٰذا اس کا امکان کم ہے کہ وہ کسی عالمی تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔

دیگر تجزیہ کار بھی یوکرین یا غزہ یا کسی بھی معاملے میں بھارت کی ثالثی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

دریں اثنا وزیرِ اعظم مودی نے منگل کو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور باہمی امور کے علاوہ یوکرین کے اپنے دورے کے سلسلے میں بھی تبادلۂ خیال کیا۔

انھوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ پوٹن سے بات چیت میں اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے پر بات کی اور روس یوکرین تنازع اور یوکرین دورے پر گفتگو کی۔

حکومت کے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم نے روس کے اپنے کامیاب دورے کو یاد کیا۔ دونوں رہنماؤں نے متعدد باہمی امور پر ہونے والی پیش رفت پر بھی گفتگو کی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG