رسائی کے لنکس

شمالی کوریا کے فوجیوں کی روس میں موجودگی؛ امریکہ اور جنوبی کوریا میں مشاورتی عمل کا آغاز


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • شمالی کوریا کے 10 ہزار فوجی روس میں متعین ہیں۔ امریکہ اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارتی اور فوجی حکام اس پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
  • شمالی کوریا پر روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے چین خائف ہو سکتا ہے، بعض تجزیہ کاروں کی رائے
  • جنوبی کوریا کے وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔
  • ایجنڈے میں زیادہ ترجیح شمالی کوریا کے روس سے تعلقات کو دی گئی ہے: محکمۂ خارجہ

ویب ڈیسک _ امریکہ اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارتی اور فوجی حکام شمالی کوریا کی جانب سے 10 ہزار فوجی روس میں متعین کرنے پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور اس معاملے پر ان کی گہری نظر بھی ہے۔

دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام دو دن بعد جمعرات کو اسی معاملے پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔

دوسری جانب امریکی حکام اور بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شمالی کوریا پر روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے چین خائف ہو سکتا ہے۔ ایسے موقع پر ہو سکتا ہے کہ چین شمالی کوریا کو وہ میٹریل برآمد کرنا بند کر دے جس کا استعمال گولہ بارود کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن مشترکہ طور پر جنوبی کوریا کے وزیرِ خارجہ چو تائی یول اور وزیرِ دفاع کِم یونگ ہیون کی میزبانی کریں گے۔ اس دوران دونوں ممالک کے رہنما اس اتحاد کو درپیش خطرات پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایجنڈے میں سب سے زیادہ ترجیح شمالی کوریا کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو دی گئی ہے جس نے اپنی فوج روس میں تعینات کی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کی حالیہ مہینوں میں کی گئی اشتعال انگیزیاں اور بحر الکاہل میں سیکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کا عزم بھی موضوعِ گفتگو ہوگا۔

امریکہ اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ ترین حکام کے درمیان مشاورت کا یہ عمل ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دو ہفتے قبل ہی شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کی نگرانی کی کثیر الجہتی مانیٹرنگ ٹیم کا قیام عمل لایا گیا ہے۔ اس گروپ میں امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر اتحادی ممالک شامل ہیں۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز اور برطانیہ بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔ اس اتحادی ٹیم کا مقصد شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کے نفاذ کو مربوط بنانا ہے۔

مذکورہ گروپ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اب بھی موجود ہے۔ اس گروپ نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ جوہری عالمی عدم پھیلاؤ کو یقینی بنائے گا جب کہ شمالی کوریا کے بڑی تباہی کے ہتھیار اور بیلیسٹک میزائل پروگرام کے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات کرے گا جو کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی عائد کردہ پابندیوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے روس کی یوکرین میں جاری جنگ میں مدد کے لیے فوجی اہلکار بھیجنے کا مقصد اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام اور گولہ بارود کے مؤثر ہونے کا تجربہ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے چین سے بات کی ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ واشنگٹن ڈی سی کو اس معاملے پر تشویش ہے۔ ان کے بقول چین کو بھی کہا گیا ہے کہ اس کے دو پڑوسیوں روس اور شمالی کوریا کے عدم استحکام سے متعلق اقدامات پر فکر مند ہونا چاہیے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ’کوریا چیئر‘ کے وکٹر چا کا کہنا ہے کہ چین روس کی یوکرین میں جاری جنگ کا حامی رہا ہے۔ البتہ اب شمالی کوریا کی اس میں شمولیت سے پریشان کن صورتِ حال جنم لے رہی ہے۔

ان کے بقول چین کو یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ شمالی کوریا پر روس کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہو۔

اسی تناظر میں انہوں نے مزید کہا کہ چین کچھ مخصوص اقدامات بھی کر سکتا ہے جن میں پیٹرولیم کوک کی شمالی کوریا کو برآمد کرنے پر پابندی شامل ہے۔ پیٹرولیم کوک کا استعمال گولہ بارود بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

وکٹر چا کا کہنا تھا کہ حالیہ سرکاری رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مواد کی درآمد میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کی تجارت سست سے عمومی صورتِ حال کی جانب بڑھ رہی ہے۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع کی ترجمان سبرینا سنگھ نے کہا ہے کہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن جنوبی کوریا کے ہم منصب سے بدھ کو ملاقات کریں گے۔

جنوبی کوریا کے وزیرِ دفاع اس بدھ کو پینٹاگون کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکہ اور جنوبی کوریا میں سیکیورٹی سے متعلق 56واں مشاورتی اجلاس ہوگا۔

XS
SM
MD
LG