|
ویب ڈیسک __ امریکہ میں منگل کو ہونے والا صدارتی انتخاب ملکی تاریخ کا ساٹھواں الیکشن تھا۔ امریکی صدارتی الیکشن اپنے منفرد طریقہ کار کی وجہ سے دنیا میں سب سے مختلف ہے۔
امریکہ کی تاریخ کا پہلا الیکشن سن 89-1788 میں ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک ہر چار سال بعد صدارتی انتخاب منعقد ہوتا ہے۔
امریکہ کے پہلے صدارتی الیکشن کے وقت امریکہ کو آزاد ہوئے اور دستور بنے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا پہلا صدارتی الیکشن خود امریکہ کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے لیے بھی اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔ اگرچہ اس الیکشن نے آنے والے انتخابات کے لیے کئی روایات قائم کیں۔
امریکہ میں صدارت کے لیے انتخابی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی آتی رہیں اور ریاستوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اس میں کئی قواعد و ضوابط اور قوانین کا اضافہ بھی ہوتا گیا۔
لیکن پہلے الیکشن سے امریکہ میں صدارت کے مضبوط اور مستحکم ادارے کی بنیادی پڑی جو بلا تعطل 236 برس سے برقرار ہے اور یہی تسلسل امریکہ کو دنیا کی قدیم ترین فعال جمہوریت بناتا ہے۔
بلا مقابلہ انتخاب
امریکہ کا آئین بناتے ہوئے جب صدر کے عہدے کی تجویز دی گئی تو اسی وقت اتفاق رائے ہوگیا تھا کہ اس منصب پر کون براجمان ہوگا۔ لیکن اصل مسئلہ ان صاحب کو قائل کرنا تھا جنہیں صدر بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ یہ نام امریکہ کی آزادی کی جنگ کے سرخیل جارج واشنگٹن کا تھا۔
امریکہ کی جنگِ آزادی میں کونٹی نینٹل آرمی کی فتح کے بعد جارج واشنگٹن ریٹائرمنٹ کی پُرسکون زندگی گزارنا چاہتے تھے اور صرف 1787 میں آئین سازی کے لیے متحرک ہوئے تھے۔
لیکن جیسے ہی وہ ورجینیا میں اپنے فارم پر واپس پہنچے تو ان کے دوستوں اور پرستاروں نے انہیں قائل کرنا شروع کر دیا کہ نو مولود قوم انہیں اپنی اتحاد کی علامت سمجھتی ہے اور اپنا سربراہ دیکھنا چاہتی ہے۔
اس کے باوجود واشنگٹن مسلسل صدر بننے سے انکار کرتے رہے اور بادل ناخواستہ یہ پیش کش قبول بھی کی تو انہیں توقع تھی کہ الیکشن میں کوئی اور جیت جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہیں منتخب کرلیا گیا۔
جارج واشنگٹن نہ صرف امریکہ کے پہلے صدر تھے بلکہ وہ امریکہ کی تاریخ کے واحد صدر بھی تھے جو یہ عہدہ حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
پہلے انتخاب میں کون کون شریک ہوا؟
پہلے صدارتی الیکشن میں مسابقت کی فضا نہیں تھی۔ آج کی طرح طویل انتخابی مہم اور امیدواروں کے درمیان مباحثے نہیں ہوئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکہ میں نئے بنائے گئے آئین کے فراہم کردہ انتخابی نظام پر عمل کیا جارہا تھا۔
آج کی طرح اس وقت بھی الیکشن کا فیصلہ ہر ریاست کے الیکٹرز پر مشتمل الیکٹورول کالج نے کرنا تھا۔ تاہم ریاستوں کو اپنے الیکٹورل ووٹس کے انتخاب کا طریقہ متعین کرنے کی مکمل آزادی دی گئی تھی۔
کنیٹیکٹ، جارجیا، ساؤتھ کیرولائنا اور نیوجرزی کی ریاستی حکومتوں نے اپنے الیکٹورلز مقرر کیے تھے جب کہ میساچوسٹس، نیو ہیمپشر، ورجینیا، ڈیلاویئر، میری لینڈ اور پینسلوینیا میں الیکٹورلز کے لیے انتخابات منعقد کیے گئے تھے۔
امریکہ میں ابتداً 13 ریاستیں تھیں جن میں سے صرف 10 نے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ باقی تین ریاستوں میں سے نارتھ کیرولائنا اور روڈ آئی لینڈ اس وجہ سے الیکشن میں شامل نہیں ہوئیں کہ وہاں ریاستی سطح پر آئین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی۔
نیویارک کے قانون ساز ایوانوں میں الیکٹرز مقرر کرنے کے طریقۂ کار پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا اور وہاں الیکشن کا وقت آنے تک مندوبین نامزد ہی نہیں کیے جاسکے تھے۔ اس لیے صدر کو منتخب کرنے والوں میں نیویارک کی نمائندگی بھی نہیں تھی۔
آج امریکہ کے صدارتی الیکشن میں بالواسطہ طور پر ہر ووٹر کی رائے شامل ہوتی ہے لیکن پہلے الیکشن میں تین ریاستیں سرے سے شامل ہی نہیں ہوئیں۔ چار ریاستوں میں پاپولر ووٹ بھی نہیں ڈالے گئے تھے اور جہاں ووٹنگ ہوئی بھی تو ان چھ ریاستوں میں صرف جائیداد رکھنے والے سفید فام افراد کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا۔
انہی اسباب کی وجہ سے پہلے صدارتی انتخاب کو امریکی تاریخ میں کم ترین ٹرن آؤٹ والا صدارتی الیکشن بھی کہا جاتا ہے۔
ایک الیکٹر کے دو ووٹ
پہلے صدارتی الیکشن میں صدر کا انتخاب کرنے والے ہر ایک مندوب یا الیکٹر کو دو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا جو انہیں الگ الگ امیدواروں کو دینا تھا۔ زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو صدر اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو نائب صدر بنایا جانا تھا۔
الیکٹرز کو ووٹ دینے کے لیے چار فروری 1789 کو طلب کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر 72 الیکٹرز نے صدر کا انتخاب کرنا تھا۔ لیکن ان میں سے تین نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا جب کہ دیگر 69 نے متفقہ طور پر جارج واشنگٹن کو صدر منتخب کیا۔
تاہم نائب صدر کے عہدے کے لیے بھی مقابلہ ہوا جس میں جون ایڈمز 34 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ ان کے ساتھ جون جے، رابرٹ ہیرسن اور جون ہینکوک اور دیگر کو بھی ووٹ ملے۔
فورم