|
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز غزہ میں اسرائیل ۔حماس جنگ کے خاتمےاور عسکریت پسندوں کے پاس موجود باقی لگ بھگ 100 یرغمالوں کی رہائی کے کسی ممکنہ فوری معاہدے کو حتمی شکل دینےکے نئے مذاکرات کی غرض سے قطر پہنچ گئے ہیں۔
برنز قطری عہدے داروں کے ساتھ ایسے میں اجلاس کر رہےہیں جب متعدد عرب میڈیا سائٹس نے رپورٹ دی ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے کسی معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیں ۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مرسر نے بدھ کو ایک میڈیا بریفنگ میں مجوزہ معاہدے پر کسی تبصرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ، جتنا کم بولیں اتنا ہی بہتر ہے ۔
اقوام متحدہ کےلئے اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ، ’’اس وقت جب ہم بات کر رہےہیں، یرغمالوں کے معاہدے پر گفت و شنید جاری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم کوئی معاہدہ طے کر سکتے ہیں ۔ حماس کی جانب سے متعدد بار مسترد کیے جانےکے بعد ، ہمیں امید ہے کہ ہانوکا اور کرسمس کی تعطیلات سے قبل ہمارے پاس کوئی خبر ہو گی ۔‘‘
تاہم ڈینن نے خبردار کیا کہ حماس نے ماضی میں آخری لمحوں میں مطالبے کیے ہیں جن سے دوسرے ممکنہ معاہدے خطرے میں پڑ گئے تھے۔
جبکہ عسکریت پسندوں نے جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے کرنے میں کئی مہینوں کے تعطل کا الزام اسرائیل کو دیا تھا۔
ڈینن نے کہا ، ’’ ہمیں امید ہے کہ یہ ایک ہی مرحلے میں ہوجائے گا ، تمام یرغمالوں کی رہائی کے ساتھ،’’ کیوں کہ ہم تمام یرغمالوں کی گھر واپسی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
عرب میڈیا نے خبر دی ہے کہ معاہدےکے امکانات میں ، جنگ بندی کا پہلا مرحلہ طویل ہو سکتا ہے ، جو 45 سے 60 دن تک برقرار رہے گا، اور جس میں فلسطنی قیدیوں کے بدلے تیس یرغمالوں کو رہا کیا جانا شامل ہوگا ، زندہ یا مردہ۔
اس کے علاوہ ، عرب میڈیا نے رپورٹ دی کہ کسی ممکنہ معاہدے کی شرائط کے تحت ، اسرائیل اپنے فوجیوں کو غزہ سے واپس بلالے گا جب کہ باقی فلاڈیلفی اور نتزریم راہداریوں میں رہیں گے۔
اس کے علاوہ فلسطینی خواتین اور بچوں کو شمالی غزہ واپسی کی اجازت دی جائے گی ،جس کا بیشتر حصہ جنگ سے تباہ ہو چکا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی کوششیں بار بار اہم رکاوٹوں کی وجہ سے ناکام ہوتی رہی ہیں لیکن حالیہ مذاکرات نے کسی معاہدے کے لئے امید پیدا کی ہے۔
منگل کے روز واشنگٹن نے کسی فوری معاہدے کے امکان پر محتاط امید کا اظہار کیا ۔
یہ اچانک امید کیسے پیدا ہوئی؟
ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس حالیہ بین نے کہ بیس جنوری کو ان کی اپنے منصب پر واپسی سے قبل کوئی معاہدہ طے پاجانا چاہئے ، مذاکرات کے تازہ ترین مرحلے پر اثر ڈالا ہے ۔
ایک سفارتی ذریعے نے کہا کہ ، حماس، جو اپنے لبنانی اتحادی ، حزب اللہ کے کمزور پڑنے اور شام کے بشار الاسد کا تختہ الٹے جانے کے بعد کمزور ہو گئی ہے ، سال کے اختتام سے قبل کسی معاہدے تک پہنچنےکےلیے بے چین ہے۔ذریعے نے کہا کہ بہت سے لوگ اسے(معاہدے کو ) کرسمس کے بہترین تحفے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حماس کے ایک اعلی سطح کے عہدے دار نے منگل کواے ایف پی کو بتایا کہ مذاکرات آخری تفصیلات کے مرحلے میں ہیں اور یہ کہ جب مذاکرات ختم ہو جائیں گے تو قطر اور مصر کسی معاہدے کا اعلان کر دیں گے۔
اور اگرچہ حماس کے ایک عہدے دار نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ ، مصر ، قطر ، ترکیہ ، اقوام متحدہ اور امریکہ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت دیں گے ، کسی نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے ۔
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر غیر متوقع حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔
ان میں سے سو سے زائد یرغمالوں کو نومبر 2023 میں عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2023 کے حملے کے فوری بعد اسرائیل نے حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق 45ہزار سے زیادہ فلسیطینیوں کی موت ہو چکی ہے جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں حماس کے ہزاروں جنگجو شامل ہیں۔
میدان جنگ میں، طبی ماہرین نے بدھ کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ حملوں میں شمالی غزہ کے بیت لاہیا قصبے میں ایک حملہ بھی شامل تھا جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیل کے دیگر حملوں نے وسطی غزہ اور فلسطینی انکلیو کے جنوبی حصے میں رفح کے علاقے کو نشانہ بنایا۔
وی او اے کی اس رپورٹ کےعلاوہ اس خبر میں کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم