یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی بات مانتے ہوئے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی پر راضی ہوں تاکہ افغانستان متحد ہو کر عالمی وبا کوویڈ 19 کا مقابلہ کر سکے۔
سفارت کار رولنڈ کوبیا نے واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے زیر اہتمام ایک آن لائن مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام افغان سیاسی فریق یہ مد نظر رکھیں کہ کرونا وائرس کے چیلنج نے افغانستان میں حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
ایسی صورت حال میں اس موذی مرض سے نمٹنے کے لیے ایک نئی سوچ اور سیاسی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے کیوںکہ اس مسئلے کا تعلق تین کروڑ 50 لاکھ افغانوں کی صحت اور مستقبل سے ہے۔ ایسے میں طالبان کو تمام افغانوں سے مل کر کرونا وائرس کے خلاف لڑنا چاہیے۔
کوبیا نے یاد دلایا کہ طالبان کہتے ہیں کہ وہ دنیا سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں تو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں اقوام متحدہ اور تمام ممالک اور اداروں کی بات پر عمل کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو بھی طالبان کو باور کرانا چاہیے کہ وہ جنگ بندی کر کے افغانستان میں کرونا وائرس کے خلاف کوششوں کو مضبوط کریں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر رمضان کے مہینے میں انسانی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے جلد از جلد جنگ بندی کریں تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
اٹلانٹک کونسل کی جنوبی ایشیا سینٹر کی ریذیڈنٹ سینئر فیلو مریکا تھیروس نے اس مباحثے کی میزبانی کرتے ہوئے افغانستان کو درپیش مختلف چیلنجز کا ذکر کیا۔
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کرائسز گروپ کے ماہر اینڈریو ویٹکز نے کہا کہ افغانستان پہلے ہی امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدے پر عمل کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں الجھا ہوا تھا۔ اب کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ طالبان جنگ بندی کے مقابلے میں امن معاہدے پر پیش رفت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پہلے ہی سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسئلے اور الیکشن کے بعد ہونے والے سیاسی ڈرامے سے دوچار تھا اور اب ان مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی انسانی اور صحت عامہ کی صورت حال سے مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر اور ذالہ نعمت نے، جو کہ افغانستان ریسرچ اینڈ ایویلوایشن یونٹ کی ڈائریکٹر ہیں، کہا کہ ایک طرف تو افغان عوام کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی زد میں ہیں اور دوسری طرف تشدد کی کارروائیوں میں انسانی جانوں کا زیاں بھی جاری ہے۔
انسانی بنیادوں پر فوراً جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے تین مہینوں میں میں 500 افغان شہری مارے گئے، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان ایک لمبے عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں اور ابھی بھی انہوں نے جنگ بندی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک پاکستان کو طالبان پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ انسانی ہمدردی کے تحت جنگ بندی پر رضامند ہوں کیونکہ اگر افغانستان میں صحت عامہ کی صورت حال خراب ہوتی ہے تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔
اس موقع پر ٹائم فار ریئل پیس تنظیم کی بانی ساحر ہحلیمزئی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے انسان دوست تنظیموں کا تشدد کے حالات میں کام کرنا مشکل ہے۔
تشدد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسم بہار کے جارحانہ حملوں کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے۔
ان حالات میں افغان باشندوں کی بہتری کے لئے وقت کم ہے لہذا جنگ بندی انتہائی ضروری ہے۔