امریکہ کی حمایت یافتہ عراقی فورسز نے ملک کے سب سے بڑے شہر موصل میں شدت پسند گروپ کے آخری گڑھ کی طرف اتوار کو پیش قدمی شروع کر دی ہے۔
یہ بات ایک عراق کمانڈر نے آٹھ ماہ سے جاری مہم کی سب سے بڑی لڑائی کے آغاز پر بتائی ہے۔
داعش نے 2014ء کے موسم سرما میں شمالی اور وسطی عراق کے وسیع علاقے پر قبضوں کے دوران ہی موصل پر قبضہ کیا تھا۔ عراقی فورسز نے گزشتہ اکتوبر میں شہر کو واگزار کروانے کے لیے ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس کے بعد عسکریت پسندوں کو چند ایک مقامات کے علاوہ شہر سے نکال باہر کیا تھا۔ موصل کے پرانے شہر کے گنجان آباد علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کی طرف سے شدید مذاحمت کا امکان ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی کے ذریعے عام شہریوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ پانچ محفوظ راستوں کے ذریعے شہر سے نکل سکتے ہیں۔
عراق کی خصوصی فورز کے سربراہ جنرل عبدالغنی الاسدی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے سخت لڑائی کا امکان ہے۔
موصل کے پرانے شہر میں صدیوں پرانی النوری مسجد واقع ہے جہاں سے 2014 میں جمعہ کے خطبے میں داعش کے رہنما ابو بکر البغدادی نے عراق و شام میں قبضے میں لیے گئے علاقوں میں نام نہاد خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شدت پسندوں کے قبضے سے بہت سارے علاقے واگزار کروا لیے گئے ہیں اور عراق میں موصل شہر اب ان کا آخری گڑھ ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ پرانے شہر میں لگ بھگ ایک لاکھ 50 ہزار عام شہری پھنسے ہوئے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے انسانی بہبود کے رابطہ کار لسی گرانڈے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ عسکریت پسند ان افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو نہایت مشکل حالات کا سامنا ہے اور انہیں بہت کم خوراک اور صاف پانی میسر ہے۔