رسائی کے لنکس

لبنان میں پناہ گزینوں کا بڑے پیمانے پر انخلاء


لبنان میں شامی پناہ گزینوں کی ایک حیمہ بستی۔ فائل فوٹو
لبنان میں شامی پناہ گزینوں کی ایک حیمہ بستی۔ فائل فوٹو

ایک شامی پناہ گزین حسین محمد مچل کا کہنا ہےکہ آپ اس وقت کیا محسوس کریں گے جب آپ ایک بار کسی جگہ سکونت اختیار کر لیں اور وہاں سکون سے رہنے لگیں اور پھر کوئی آئے اور آپ کو یہ بتائے کہ آپ کو کسی اور مقام پر منتقل ہونا ہے۔

لبنان میں شام کے وہ پناہ گزین جو پہلے ہی جنگ کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ چکےہیں اب اس ملک میں بڑے پیمانے کےا یک انخلا کی وجہ سے ایک بار پھر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور ان پر قرضوں کے بوجھ اور بے گھرہونے کے احساس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

شام کے ان شہریوں کےلیے جو پہلے ہی بے گھر ہونے کے عادی ہو چکے ہیں ، ایک بار پھر نقل مکانی کا وقت آگیا ہے۔

لبنان کی وادی بیکا ء میں شام سے آنےوالے لگ بھگ 8 سے 12 ہزار پناہ گزینوں کو ان مقامات سے بے دخل کیا جا رہا ہے جہاں انہوں نے جنگ سے فرار ہونے کے بعد سے اپنے گھر پنانے کی کوشش کی تھی۔

اس انخلاءکے بارے میں، جس کاحکم فوج نے دیا ہے، خیال کیا گیا ہے کہ2011 میں تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے یہ لبنان سے پناہ گزینوں کا سب سے بڑا انخلاء ہو گا۔

ایک شامی پناہ گزین حسین محمد مچل کا کہنا ہےکہ آپ اس وقت کیا محسوس کریں گے جب آپ ایک بار کسی جگہ سکونت اختیار کر لیں اور وہاں سکون سے رہنے لگیں اور پھر کوئی آئے اور آپ کو یہ بتائے کہ آپ کو کسی اور مقام پر منتقل ہونا ہے۔ ہم اس وقت تک پریشان رہیں گے جب تک ہم کوئی ایسی جگہ تلاش نہ کر لیں جہاں ہم اپنی زندگی کا سلسلہ مستقل طور پر جاری کر سکیں ۔

حسین کا خاندان ان گھرانوں میں سے ایک ہے جو اس پناہ گاہ کو چھوڑ کر جسے انہوں نے اپنا گھر بنایا تھا، رہنے کے لیے کوئی نئی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ ان تیاریوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے ۔

اس بے دخلی کے پیچھے کارفرما سیکیورٹی کے اقدامات کا تعلق قریب واقعے ایک ہوائی اڈے سے ہے جہاں امریکی طیارےلبنانی فوج کو، جو اپنی سرحدوں پر داعش سے لڑ رہی ہے، مبینہ طور پر امدادپہنچا چکے ہیں۔

چونکہ لبنان میں سرکاری کیمپوں کی اجازت نہیں ہے اس لیے حکام قواعد کے خلاف طریقے سے رہنے والے پناہ گزینوں کو کسی بھی جگہ سے باآسانی بے دخل کر سکتے ہیں۔

اسی دوران نقل مکانی اور نئے سرے سے گھر بنانے کے مراحل سے گزرنے والے پناہ گزینوں پر قرض کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے اثرات فوری اخراجات سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کے أمور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے ایک عہدے دار جوزف زیپاٹر کہتے ہیں کہ اگر پناہ گزینوں کو اس مقام سے کہیں بہت دور منتقل کیا جا رہا ہے جہاں وہ سر دست رہ رہے ہیں تو وہ اپنی ملازمتوں سے ٕمحروم ہو جائیں گے، جس سے ان پر موجود قرض اور ان کی حفاظت کی صورتحال بھی متاثر ہو گی۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ مشکل حالات میں بچے بھی کام کر رہے ہیں ، چھ یا سات سال کے بچے اسکول جانے کی بجائے کام کر رہے ہیں ، وادی بیکا ء میں جسم فروشی بھی ایک مسئلہ ہے۔

حسین کے گھر کے پاس ایک سابقہ کیمپ کی باقیات ہیں۔ لگ بھگ 4 ہزار لوگ یہاں سے جا چکے ہیں اور کسی اور جگہ اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کر رہے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ بڑے پیمانے پرنقل مکانی کا یہ سلسلہ شام اور میزبان گھرانوں کے درمیان کہیں مزید کشیدگیاں پیدا نہ کر دے۔

اس کیمپ میں پناہ گزینوں کا ایک نیا ریلہ پہنچ چکا ہے اور ان کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ انخلا رضاکارانہ بنیاد پر ہو رہے ہیں اور زیادہ تر پر امن طریقے سے ہو رہے ہیں، اور بہت سے افراد یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اس فیصلےکے خلاف لڑنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

ایک شامی پناہ گزین ماجد محمد کا کہنا ہے کہ آپ قطعی طور پررک نہیں سکتے۔ حکومت نے جو فیصلہ کر دیا ہے خواہ وہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، آپ پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔

لیکن ایسی افسردہ رضامندیاں ان لوگوں کی پریشانیوں کو اوجھل کر دیتی ہیں جو کسی حقیقی گھر سے محروم ہیں۔

ایک شامی پناہ گزین ایمان ہاشم کا کہنا ہے کہ ا ب میں اپنے بچوں کے لیے، اپنے دو چھوٹے چھوٹےبچوں کی گزر بسر کے لیے رقم کہاں سے لاؤں؟ میں ان کے اخرات کیسے پورے کروں گی۔ اس بے دخلی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG