صومالیہ میں علاقائی خشک سالی کے باعث پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں اور ملک میں قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ امدادی کوششیں ہیضے کی ایک وبا کے پھوٹنے کے باعث مزید پیچیدہ شکل اختیار کر رہی ہیں خاص طور پر ملک کے جنوبی حصے میں جہاں کچھ دیہات بدستور الشباب کے کنٹرول میں ہیں۔
پانچ سالہ فاطمہ کو معدے کی تکلیف، الٹی اور اسہال کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ا س کی والدہ بشارو محمد نے صومالی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ایک اور بچے کو نہیں کھو سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری سب سے بڑی بیٹی اسہال میں مبتلا تھی وہ دو ماہ قبل بیدواکے ایک مضافاتی گاؤں بوسلی میں انتقال کر گئی تھی ۔ میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو گھر چھوڑ کر آئی ہوں ۔ میری تین بیٹیا ں ہیں ۔ میری مرحوم بیٹی سات سال کی تھی۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ہیضے اور بھوک سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے بوسلی جیسے دیہات ہیں جو الشباب کے کنٹرول میں ہیں ۔ان تک رسائی ایک چیلنج ہے ۔ ہزاروں لوگ مدد کی تلاش میں پیدل چل کر سرکاری کنٹرول کے علاقوں مثلاً بیدو پہنچے ہیں۔
صومالیہ سے جنوری کے مہینے سے ہیضے کے چالیس ہزار سے زیادہ واقعات کی اطلاعات آئی ہیں ۔ ان میں سے نصف سے زیادہ مریضوں کا تعلق جنوب مغربی وفاقی ریاست سے ہے ۔اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ، ہیضے کے زیادہ تر مریض غذائی قلت میں مبتلا بچے ہیں۔ صحت کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ماہ جنوبی اور وسطی صومالیہ میں بارشیں ہیضے کی ایک تازہ وبا کی ایک وجہ بنی ہیں۔
علاقے کے سب سے بڑے بے ریجنل اسپتال کے ایک خصوصی وارڈ میں اس بیماری سے کمزور درجنوں مریضوںکا علاج ہو رہا ہے۔
اسپتال کی سپر وائزر سلیمہ شیخ شعیب کہتی ہیں کہ جب ہیضے کی وبا پھوٹنا شروع ہوئی تو ہمارے پاس بہت سے مریض تھے ۔ گزشتہ ہفتے ہمارا خیال تھا کہ پانچ مریض آئیں گے لیکن اب ہر صبح آٹھ بجے سے دوپہر تک ہمارے پاس کم از کم سولہ نئے مریض آتے ہیں ۔ صورتحال بدتر ہو رہی ہے۔
قصبے کے ارد گرد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بے گھر لوگ عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور مزید لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔ یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے کام کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی کارکن ہیضے کی دوا کی فراہمی کے لئے کیمپوں میں جا رہے ہیں۔ سب سے بڑے اسپتال میں علاج کے لیے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک بھر میں ہر روز ہیضے کے 200 سے 300 کے درمیان واقعات کی خبریں مل رہی ہیں۔