گزشتہ جنوری میں ایران کی طرف سے یوکرین کے ایک مسافر طیارے کو مار گرانے کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا نے کہا ہے کہ وہ ایران سے خون بہا کی ادائیگی نہیں چاہتے بلکہ وہ اس واقعے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر مقدمہ شروع کرنے کے خواہاں ہیں جس میں ایرانی لیڈروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
8 جنوری، 2020 کو ایران نے یوکرین کی پرواز 752 کو تہران سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد میزائل سے نشانہ بنا کر مار گرایا تھا، جس میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جہاز میں سوار افراد کی اکثریت ایرانی شہریوں اور ایرانی نژاد کنیڈین افراد کی تھی جو کیف کے راستے کینیڈا جا رہے تھے۔
ایران نے اس واقعہ کو دفاعی اہل کاروں کی غلطی قرار دیا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں کسی بھی شخص کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔
اس ہوائی سانحے کے ہلاک شدگان کے کینیڈا اور امریکہ میں مقیم پانچ ورثا نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی پہلی برسی سے قبل انصاف کے حصول کیلئے فیصلہ کن اقدامات کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایران کی طرف سے خون بہا کی ادائیگی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔
ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں مقیم نواز ابراہیم، جن کی بہن اور بہنوئی اس حملے میں ہلاک ہوگئے تھے نے کہا ہے کہ وہ اور دیگر ہلاک شدگان کے ورثا خون بہا کی پیشکش کو شرمناک قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت اس حملے کے حوالے سے مالی رقم کی ادائیگی کے ذریعے کیس کو بند کرنا چاہتی ہے۔ تاہم وہ اس سلسلے میں عدالتی انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔
ہلاک شدگان کے ورثا نے کینیڈیا کے آنٹیریو صوبے میں ایران کے خلاف دو مقدمے دائر کر رکھے ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے حادثے پر کینیڈا کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے اسے تہران کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی قرار دیا تھا۔