سندھ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو دوسری شفیق ماں کا درجہ دیا جائے تو بھی کم ہے۔ ہر لیڈی ہیلتھ ورکر ایک نہیں، اپنے علاقے کے 100 گھروں میں آباد بچوں کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔
وہ ہر روز صبح سویرے ہی اپنے فرائض منصبی کے لئے گھر سے نکل جاتی ہیں۔ اچھے اخلاق، اچھی تہذیب اور چھوٹے بچوں سے محبت انہیں پورے علاقے میں ہر دل عزیز بنائے ہوئے ہے۔
علاقہ مکین کہتے ہیں ان کے پاس ایک ’جادوئی اثر رکھنے والی دوا‘ ہے اور جو بچہ بھی یہ دوا لیتا ہے وہ صحت مند اور موٹا تازہ ہو جاتا ہے۔
یہ ورکر ہر روز گھر، گھر جاتی ہیں اور وہاں موجود 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اسکریننگ کرتی ہیں۔ جس بچے میں غذائیت کی کمی ہوتی ہے اسے اپنے پاس رجسٹر کر لیتی ہیں۔
سندھ ایسا صوبہ ہے جہاں 5 سال سےکم عمر کے 42 فیصد بچوں کا وزن مطلوبہ حد سے کم ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف‘ کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق سندھ کے 48 فیصد بچوں میں نشونما کی کمی ہے۔ یہاں کے رہائشی 15 فیصد بچے جسامت کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہیں۔ یہ اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔
یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹسٹک پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کی جانب سے کیے گئے سندھ ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے کے بعد کچھ اور فکر انگیز اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
صوبے میں 29 فیصد بچوں کو 6 ماہ کی عمر تک مائیں اپنا دودھ نہیں پلاتیں۔
صرف 21 فیصد بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں۔
تیس فیصد نومولود بچوں کا وزن پیدائش کے وقت مقررہ مقدار سے کم ہوتا ہے۔
بچوں میں وزن کی کمی کو پورا کرنے کے لئے سرکاری اداروں کی جانب سے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
نیوٹریشن سپورٹ پروگرام سندھ کے منیجر ڈاکٹر مظہر خمیسانی کہتے ہیں ’بچوں میں وزن اور غذائیت کی کمی کی کئی وجوہات ہیں جیسے قبل از وقت پیدائش کی شرح کا بہت زیادہ ہونا۔ لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں اور چھوٹی عمر میں لڑکیوں کا ماں بننا، بچوں میں وقفہ نہ ہونا، زیادہ بچے ہونا، صاف پانی کی عدم دستیابی، صفائی ستھرائی نہ رکھنا، بیت الخلا نہ ہونا اور مختلف بیماریاں۔‘‘
ان مسائل کے حل کے لئے سندھ کے 9 اضلاع جن میں تھرپارکر، عمر کوٹ، ٹنڈو محمد خان، بدین، سانگھڑ، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، جیکب آباد اور کشمور شامل ہیں ان میں نیوٹریشن سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
اس پروگرام کی کامیابی بلا شبہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بغیر ادھوری ہے۔ حکومت سندھ نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے 270 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مذکورہ اضلاع میں تعینات کیا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز مختلف گھروں کے دورے میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اسکریننگ کرتی ہیں اور غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کو کھانے کے لئے’چاکلیٹ نما دوا ’آر یو ٹی ایف‘ یعنی ’ریڈی ٹو یوز تھیراپیوٹک فوڈ ‘دیتی ہیں۔
اپنے منفرد ذائقے کے سبب بچے اسے چاکلیٹ سمجھ کر کھاتے ہیں۔
یہ دوا بچے کو 2ماہ تک ہر روز دی جاتی ہے جس سے 100 فیصد نتائج سامنے آ رہے ہیں اور بچوں میں غذائیت کی کمی دور ہو رہی ہے۔
یہ دوا یونیسیف کے ہیڈکوارٹر سے منگوائی جاتی ہےاور اپنے نتائج کے سبب ہی اسے لوگ ’جادوئی اثر رکھنے والی دوا‘ کہتے ہیں۔