پنجاب کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں ملوث ایک شخص کو موت کی سزا سنائی ہے۔
ایڈیشنل اور ڈسٹرکٹ جج نوید احمدنے 24 سالہ مجرم نعمان چندیا پر دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
پولیس کے مطابق 2011 میں مظفر گڑھ کے سٹی پولیس اسٹیشن میں ایک شخص اظہر فاروقی نے مہر حسین کے خلاف نعمان چندیا کو موبائل فون کے ذریعے توہین آمیز پیغام بھیجنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی۔
مظفر گڑھ کے اسسٹنٹ پراسیکیوٹر محمد فاروق نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بعد ازاں پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ توہین مذہب کے پیغام مہر علی نہیں بلکہ نعمان چندیا نے اس کی سم کو اپنے فون میں ڈال کر اپنے ہی نمبر پر بھیجے۔
محمد فاروق نے کہا کہ ملزم نعمان چندیا کے خلاف پیش کی گئی تکنیکی شہادت میں یہ بات ثابت ہوئی کہ توہین آمیز پیغام اسی نے بھیجے تھے جس کے بعد منگل کو مظفر گڑھ کے ایڈیشنل اور سیشن جج نوید احمدنے مجرم کو موت کی سزا سنائی۔
نعمان چندیا اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اکثر ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں توہین مذہب کے ملزم کو قانون کی گرفت میں جانے سے پہلے ہی مشتعل لوگ بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں جبکہ کئی ایک واقعات میں ان مقدمات میں ملزموں کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی سہولت کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بعض حلقوں کا موقف ہے کہ اکثر لوگ اپنے ذاتی عناد کے پیش نظر اس قانون کا دوسروں کے خلافغلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں لہذا اس بارے میں قانون میں ترمیم پر غور کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس ضمن کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی ہے۔
1980 کی دہائی میں بننے والے اس قانون کے تحت اب تک متعدد افراد کو توہین مذہب کے جرم میں ذیلی عدالتیں موت کی سزا سنا چکی ہیں تاہم اب تک کسی بھی مجرم کی سزا پرعمل درآمد نہیں کیا گیا کیونکہ ان کو دی گئی موت کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا ہے۔