فلسطینی رہنما محمود عباس نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کو بتایا کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ دو عشرے قبل اوسلو میں ہونے والے سمجھوتے کا پابند نہیں، اور عالمی ادارے سے مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے۔
اُنھوں نے یہودی ریاست پر فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کا الزام لگایا، ایسے میں جب وہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں نئی اسرائیلی بستیاں تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اُن کی جانب سے دیا جانے والا یہ ایک کھلا انتباہ ہے کہ اسرائیل کی ساتھ رابطے ختم کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے مغربی کنارے میں فلسطینی سکیورٹی فورسز اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان رابطے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا، جو کہ اُن کا ایک مشترکہ دشمن ہے۔۔ یعنی حماس کا دہشت گرد گروپ۔
عباس کی تقریر کی اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے فوری طور پر مذمت کی۔ اسرائیلی لیڈر نے کہا کہ ' یہ دھوکہ دہی کے مترادف ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں اشتعال انگیزی اور تباہی کی ترغیب ملتی ہے'۔
نیتن یاہو نے فلسطینی رہنما سے مطالبہ کیا کہ وہ 'ذمہ داری کا مظاہرہ کریں' اور یہ کہ وہ بغیر شرائط کے امن مذاکرات میں شامل ہوں۔
عباس نے اقوام متحدہ سے کہا کہ فلسطینی سنہ 1993کے امن معاہدے کی پاسداری جاری نہیں رکھ سکتے؛ اور بقول اُن کے، 'قبضہ کرنے والے ملک کی حیثیت سے، اسرائیل کو اپنی ذمہ داریوں کو ضرور پورا کرنا چاہیئے'۔
عباس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جانی چاہیئے، جس کی وہ حقدار ہے۔