’’میں آپ کو اولڈ سٹی الیگژینڈریا‘‘ لے چلتی ہوں ۔
امریکی ریاست ورجینیا میں پٹومک ریور کے کنارے قائم یہ شہر ڈھائی سو سال پرانی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے تاریخی عمارتیں آج بھی قائم ہیں اور تعمیر کی جانے والی نئی عمارتوں کے لئے بھی پرانا طرز تعمیر اپنایا گیا ہے۔
آج مجھے نیپال سے آئی میری ایک دوست کو شہر کی سیر کرانی تھی لہذا اسے شہر دکھانے کے بہانے ایک بار پھر اپنی پسندیدہ جگہ ۔۔ پٹومک ریور ۔۔۔ کے کنارے جا پہنچی۔
سردیوں کی صبح , بادلوں سے بار بار جھانکتے سورج اور پانی پر گرنے والی اس کی کرنوں کے دلکش منظر نے مجھے دل ہی دل میں خدا سے گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔ یا اللہ آپ نے یہ دنیا کتنی خوبصورت بنائی ہے۔۔۔ کاش میں آپ کی بنائی ہوئی تمام خوبصورت چیزیں دیکھ سکوں۔۔۔
اولڈ سٹی سے واپسی پر ۔۔۔ میں نے ایک اور منظر دیکھا۔۔۔۔
اولڈ سٹی جیسے سیاحتی علاقے میں سیکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار کی گاڑی سڑک کے کنارے آ کر رکی۔۔۔۔ پولیس اہلکار کو گاڑی سے باہر نکلتا دیکھتے ہی ۔۔۔ بیس قدم کے فاصلے پر ۔۔۔ لمبے لمبے بالوں والا، عمر رسیدہ ۔۔ پھٹے ہوئے گندے کپڑوں میں ملبوس ۔۔ ایک شخص تیزی سے اس کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔( اس غیر معمولی سرگرمی نے میری غیر معمولی توجہ حاصل کر لی اور میں صورتحال کا جائزہ لینے لگی ) ۔۔۔
میرا خیال تھا کہ یہ شخص نہ صرف بے گھر ہے بلکہ ذہینی طور پر معذور بھی ہے جو شاید پولیس اہلکار کو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔۔۔ لیکن مجھے فوری اس بات کا احساس ہوا کہ پولیس اہلکار نے اس بے گھر شخص کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ لیا ہے۔۔۔جس کے روئے نے مجھے مزید الجھن کا شکار کر دیا۔۔۔
پولیس اہلکار آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے گاڑی کی ڈگی کی جانب بڑھا اور ڈگی سے جوتوں کا ایک پرانا جوڑا نکال کر اس شخص کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔ بظاہر ذہنی مریض نظر انے والے شخص نے پولیس اہلکار کا ہاتھ زور سے دبایا اور بولا۔۔۔ ہیپی کرسمس۔۔۔
اور انتہائی شوق کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتا پہننے لگا۔۔۔۔اس کے لئے تو جیسے کرسمس کئی روز پہلے ہی آگئی ہو۔
چند لمحوں کی اس سرگرمی سے جہاں مجھے خدا کی قدرت کا ایک اور خوبصورت پہلو دیکھنے کو ملا وہیں میرا ذہین مجھے سالوں پیچھے لے گیا۔۔۔ جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور ایک وین مجھے اور بہت سی دوسری لڑکیوں کو سکول چھوڑتی تھی۔۔۔ میرے گھر اور سکول کے آدھے راستے، ایک سڑک کے کنارے، میں روزانہ ایک ایسے ہی شخص کو دیکھتی تھی، جس کا لباس انتہائی پھٹا ہوا اور انتہائی گندا ہوتا تھا، سردیوں میں بھی اس شخص نے وہی لباس پہنا ہوتا تھا جو وہ گرمیوں میں پہنتا تھا۔ لاہور کی سرد راتوں میں وہ شخص سڑک کےاسی کنارے پر سوتا تھا۔۔۔۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ یاد ہے۔۔۔ سخت سردیوں کے دنوں میں بھی اس کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔۔۔۔
کم عمر اور لڑکی ہونے کی وجہ سے کبھی ہمت نہیں ہوئی کے کسی سے اس بے گھر شخص کے حوالے سے کوئی سوال ہی کر لوں۔۔۔ لیکن اس شخص کو دیکھنے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتی رہتی ۔۔۔
یہ شخص جوتا کیوں نہیں پہنتا؟ کیا اسے سردی نہیں لگتی؟ کیا اس کے پاس جوتا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں؟
اولڈ سٹی میں ہونے والے واقعے کے بعد آج ایک اور سوال میرے زہین میں آیا کہ اس شخص کو کسی نے کبھی جوتا دیا ہو گا یا نہیں؟ اور ہمارے ملک میں کتنے لوگ ہیں جنہیں ہم روزمرہ زندگی میں بے گھر ، بے لباس اور بغیر جوتوں کے دیکھتے ہیں؟ ہم لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اپنے پرانے جوتے اور کپڑے کسی ضرورت مند کو دے کر ان کی عید اور کرسمس کی حقیقی خوشی انہیں دیتے ہیں؟
___
اب وردہ بولے گی - فیس بک
امریکی ریاست ورجینیا میں پٹومک ریور کے کنارے قائم یہ شہر ڈھائی سو سال پرانی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے تاریخی عمارتیں آج بھی قائم ہیں اور تعمیر کی جانے والی نئی عمارتوں کے لئے بھی پرانا طرز تعمیر اپنایا گیا ہے۔
آج مجھے نیپال سے آئی میری ایک دوست کو شہر کی سیر کرانی تھی لہذا اسے شہر دکھانے کے بہانے ایک بار پھر اپنی پسندیدہ جگہ ۔۔ پٹومک ریور ۔۔۔ کے کنارے جا پہنچی۔
سردیوں کی صبح , بادلوں سے بار بار جھانکتے سورج اور پانی پر گرنے والی اس کی کرنوں کے دلکش منظر نے مجھے دل ہی دل میں خدا سے گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔ یا اللہ آپ نے یہ دنیا کتنی خوبصورت بنائی ہے۔۔۔ کاش میں آپ کی بنائی ہوئی تمام خوبصورت چیزیں دیکھ سکوں۔۔۔
اولڈ سٹی سے واپسی پر ۔۔۔ میں نے ایک اور منظر دیکھا۔۔۔۔
اولڈ سٹی جیسے سیاحتی علاقے میں سیکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار کی گاڑی سڑک کے کنارے آ کر رکی۔۔۔۔ پولیس اہلکار کو گاڑی سے باہر نکلتا دیکھتے ہی ۔۔۔ بیس قدم کے فاصلے پر ۔۔۔ لمبے لمبے بالوں والا، عمر رسیدہ ۔۔ پھٹے ہوئے گندے کپڑوں میں ملبوس ۔۔ ایک شخص تیزی سے اس کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔( اس غیر معمولی سرگرمی نے میری غیر معمولی توجہ حاصل کر لی اور میں صورتحال کا جائزہ لینے لگی ) ۔۔۔
میرا خیال تھا کہ یہ شخص نہ صرف بے گھر ہے بلکہ ذہینی طور پر معذور بھی ہے جو شاید پولیس اہلکار کو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔۔۔ لیکن مجھے فوری اس بات کا احساس ہوا کہ پولیس اہلکار نے اس بے گھر شخص کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ لیا ہے۔۔۔جس کے روئے نے مجھے مزید الجھن کا شکار کر دیا۔۔۔
پولیس اہلکار آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے گاڑی کی ڈگی کی جانب بڑھا اور ڈگی سے جوتوں کا ایک پرانا جوڑا نکال کر اس شخص کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔ بظاہر ذہنی مریض نظر انے والے شخص نے پولیس اہلکار کا ہاتھ زور سے دبایا اور بولا۔۔۔ ہیپی کرسمس۔۔۔
اور انتہائی شوق کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتا پہننے لگا۔۔۔۔اس کے لئے تو جیسے کرسمس کئی روز پہلے ہی آگئی ہو۔
چند لمحوں کی اس سرگرمی سے جہاں مجھے خدا کی قدرت کا ایک اور خوبصورت پہلو دیکھنے کو ملا وہیں میرا ذہین مجھے سالوں پیچھے لے گیا۔۔۔ جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور ایک وین مجھے اور بہت سی دوسری لڑکیوں کو سکول چھوڑتی تھی۔۔۔ میرے گھر اور سکول کے آدھے راستے، ایک سڑک کے کنارے، میں روزانہ ایک ایسے ہی شخص کو دیکھتی تھی، جس کا لباس انتہائی پھٹا ہوا اور انتہائی گندا ہوتا تھا، سردیوں میں بھی اس شخص نے وہی لباس پہنا ہوتا تھا جو وہ گرمیوں میں پہنتا تھا۔ لاہور کی سرد راتوں میں وہ شخص سڑک کےاسی کنارے پر سوتا تھا۔۔۔۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ یاد ہے۔۔۔ سخت سردیوں کے دنوں میں بھی اس کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔۔۔۔
کم عمر اور لڑکی ہونے کی وجہ سے کبھی ہمت نہیں ہوئی کے کسی سے اس بے گھر شخص کے حوالے سے کوئی سوال ہی کر لوں۔۔۔ لیکن اس شخص کو دیکھنے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتی رہتی ۔۔۔
یہ شخص جوتا کیوں نہیں پہنتا؟ کیا اسے سردی نہیں لگتی؟ کیا اس کے پاس جوتا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں؟
اولڈ سٹی میں ہونے والے واقعے کے بعد آج ایک اور سوال میرے زہین میں آیا کہ اس شخص کو کسی نے کبھی جوتا دیا ہو گا یا نہیں؟ اور ہمارے ملک میں کتنے لوگ ہیں جنہیں ہم روزمرہ زندگی میں بے گھر ، بے لباس اور بغیر جوتوں کے دیکھتے ہیں؟ ہم لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اپنے پرانے جوتے اور کپڑے کسی ضرورت مند کو دے کر ان کی عید اور کرسمس کی حقیقی خوشی انہیں دیتے ہیں؟
___
اب وردہ بولے گی - فیس بک
Ab Vardha Bolay Gi from Urdu VOA on Vimeo.