اب جبکہ افغان جنگ ختم ہو گئی ہے اور امریکی اور دوسرے ملکوں کی افواج وہاں سے نکل چکی ہیں، یہاں امریکہ میں معاشی امور کے ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ سمیت ساری دنیا کی معیشتوں پر کرونا وائرس کی وبا کے سبب پہلے ہی بہت زیادہ دباؤ ہے، کیا امریکی معیشت کے لئے یہ ایک نیک شگون ہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو یونیورسٹی میں معاشیات اور مارکٹنگ پڑھاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کا بہت زیادہ پیسہ افغانستان میں پہلے ہی خرچ ہو چکا ہے جسے 'ڈائریکٹ کوسٹ' کہا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق شائع ہوئی ہے جس کے مطابق آنے والے دنوں میں ایک 'ان ڈائریکٹ کوسٹ' بھی ادا کرنا پڑےگی۔
براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، اس جنگ کی 'ڈائریکٹ' اور 'ان ڈائریکٹ' لاگت پانچ اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر پڑے گی، جس میں سے نصف سے زیادہ تو پہلے ہی خرچ ہو چکی ہے۔
اس ریسرچ کے مطابق، مزید اخراجات میں ان ہزاروں زخمی امریکی فوجیوں کے علاج معالجے اور انکی پینشن وغیرہ فراہم کرنے کی قیمت ہو گی جو اس جنگ میں زخمی اور معذور ہوئے اور دوسرے اخراجات ان ہزاروں لوگوں کو امریکہ یا دنیا کے دوسرے ملکوں میں آباد کرنے پر ہونگے، جنہیں امریکہ نے افغانستان سے ایئر لفٹ کیا ہے۔
چناںچہ انہوں کہا کہ براؤن یونیورسٹی اور واٹسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افئیرز کی تحقیق کے مطابق، افغانستان کی جنگ ختم ہو جانے کے باوجود اس پر اخراجات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا ان حالات میں اس جنگ کے ختم ہونے کا امریکی معیشت پر فوری طور سے کوئی بھرپور اثر پڑتا نظر نہیں آ رہا، خاص طور سے ایسے میں جبکہ امریکہ میں اس انفرا اسٹرکچر کی درستگی کے لئے جو شکست و ریخت کا شکار ہے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کوئی دو ٹریلین ڈالر کے پیکیج پر تقریباً راضی ہو چکے ہیں جو کہ ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بہرحال یہ معیشت پر ایک اضافی بوجھ ہو گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال ورلڈ بنک کے ایک سابق عہدیدار ہیں اور مڈ ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوّل یہ کہ گزشتہ بیس سال میں اس جنگ پر بھاری اخراجات ہوئے جس کے لئے قرض لینا پڑا اور اس قرض پر سود ادا کرنا پڑا اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ٹیکسیشن اور سہولتوں میں کمی کرنی پڑی۔ لیکن، اہم بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ پر اخراجات میں کمی ہوتی گئی اور 20-21 کے بجٹ میں اس جنگ کی مد میں صرف بیس بلین ڈالر مختص کئے گئے تھے۔ جو بہت چھوٹی رقم ہے تو اب اس جنگ کے اختتام سے معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
لیکن یہ ضرور ہوگا کہ اب وہ رقم دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جائے گی۔ خاص طور سے ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کی مد میں اس رقم کو استعمال کیا جائے گا جو جنگ کے دوران لئے گئے سو یہ بچت امریکی معیشت پر براہ راست اثرانداز نہی ہوگی۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ معاشی نشوونما توقع سے کم رہے۔ لیکن اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے تو اسکے معیشت پر اثرات کم سے کم ہوتے جائیں گے اور وسائل کو ملکی ضروریات کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس جنگ کے ختم ہونے سے امریکہ کے اخراجات میں جو کمی ہو گی اس سے اسکی دوسروں کی مالی مدد کرنے کی استعداد میں اضافہ ہوگا اور یہ سافٹ پاور کیا دنیا کے معاملات میں اسکےزیادہ اثر و رسوخ کا سبب بنے گی۔ ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ کسی ملک کے جو اسٹریٹجک مفادات ہوتے ہیں وہ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اخراجات کتنے کرنے ہیں کہاں کرنے ہیں اور کب کرنے ہیں۔
اور انہوں نے کہا جہاں تک وہ سمجھتے ہیں ، امریکہ کے اسوقت جو اسٹریٹیجک مفادات ہیں انکی بنیاد پر تو کوئی خاطر خواہ اخراجات میں اضافہ نظر نہیں آتا، اسلئے کہ امریکی مفادات یہ ہیں کہ امریکہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور چینی یا روسی اثر و رسوخ کو محدود کیا جائے اور اس مد میں اخراجات کا تعین پہلے ہی ہو چکا ہو گا اور ہوتا رہے گا۔ اسلئے انکے خیال میں مجموعی معاشی صورت حال میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے۔