کراچی .... پاکستان میں شادی بیاہ ہو، بچوں کی پیدائش کا موقع ہو یا خوشی کا کوئی اور لمحہ روایتی فائرنگ سالوں سے جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، اسے روکنے کے لئے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
قانون کی کتابوں تک ہوائی فائرنگ سنگین جرم ہے لیکن اس قانون پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ اس سے مختلف حادثات جنم لیتے رہے ہیں۔
حالیہ برسوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 23 اکتوبر1986ء کو بھی پشاور میں ایسا ہی ایک حادثہ پیش آ چکا ہے، جس کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ طیارہ شادی کی خوشی میں ہونے والی فائرنگ میں گھر گیا تھا۔
پولیس کے مطابق حادثے کے وقت طیارہ لینڈنگ کے لئے نیچے آ رہا تھا اور اس میں چند ہی لمحوں کی دیر تھی کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولیاں طیارے میں پیوست ہوگئیں اور طیارہ رن وے سے پہلے ہی حادثے سے دوچار ہوگیا۔
طیارہ لاہور سے پشاور آرہا تھا اور اس میں 49 افراد سوار تھے جن میں سے 13 افراد اندھا دھند فائرنگ کے سبب موت کی آغوش میں جا سوئے۔
پولیس نے اسی رات شک کی بنیاد پر فائرنگ کرنے والے سات افراد کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کردی۔ پولیس اہلکاروں کی حد تک یہ بات یقینی سمجھی گئی کہ طیارے پر زمین سے فائرنگ کی گئی۔۔۔لیکن، تخریب کاری کی غرض سے نہیں بلکہ شادی کی خوشی میں۔
ہوائی فائرنگ ’فخریہ‘ روایت
صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں شادی کے علاوہ بچے کی پیدائش، خاص طور سے لڑکے کی پیدائش کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنا سالوں پرانی روایت ہے۔ بعض قبائل فخریہ طور پر اس روایت کو زندہ رکھنے کے حق میں ہیں جس کی وجہ سے یہ نا تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ترک کرنے کا خواہش مند ہے
ہتھیار مردوں کا زیور۔۔!!
سونے پہ سہاگا کے مصداق خیبرپختونخواہ، بلوچستان، قبائلی علاقہ جات اور وزیرستان کی تمام ایجنسیوں میں ناصرف ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش اور ان کا استعمال عام ہے بلکہ یہاں ہتھیاروں کو مردوں کا زیور سمجھا جاتا ہے۔
صوبے کا ’درہ خیبر‘یا ’باڑہ‘ اور چند دوسرے علاقے تو ایسے ہیں جہاں گھر گھر جدید سے جدید ہتھیار بنائے اور بیچے جاتے ہیں۔ پستول، ریوالور، ڈبل بیرل، سنگل بیرل، بلیٹس اور دیگر ملکی و غیر ملکی خطرناک اور جدید ترین ہتھیاروں کا ’مقامی ورژن‘۔۔۔غرض کہ سب کچھ یہاں دستیاب ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں اور بچے بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
ایسے میں بچوں کو کم عمری سے ہی ان کا استعمال آجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کے دل سے خطرناک ہتھیاروں کا خوف نکل جاتا ہے اور یوں خوشی کے مواقع پر ان سے ہونے والی فائرنگ کی جان لیوا روایت نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔
یہاں حالات یہ ہیں کہ عام سبزیوں کی طرح انہیں ٹوکریوں میں دکانوں پر سجاسجا کر رکھا جاتا ہے۔ نہ کسی کو کھلے عام بیچنے پر کوئی خوف ہے نہ خریدار ہی شرماتا ہے۔ ناجائز اور غیر قانونی ہتھیاروں کے اس وسیع کاروبار پر ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز اب تک بے شمار دستاویزی فلمیں پیش کرچکے ہیں۔
کراچی میں بھی فائرنگ کی وبا عام ہوگئی
اور اب تو بالائی صوبوں سے نکل کر یہ وبا کراچی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ یہاں رمضان اور عیدین کا چاند دیکھ کر، نئے سال کی خوشی میں اور کبھی کبھی ’خوامخواہ‘ بھی ہوائی فائرنگ کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔