افغانستان کا ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد متوقع طور پر جمعرات کو اسلام آباد پہنچ رہا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ دنوں میں ہونے والی تلخی کے تناظر میں تبادلہ خیال کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق وفد کی قیادت افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کریں گے لیکن نہ تو اسلام آباد میں افغان سفارتخانے اور نہ ہی پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بارے میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب حالیہ مہینوں میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات قابل ذکر حد تک بہتری کی طرف گامزن تھے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان میں طالبان کی طرف سے پے درپے ہونے والے ہلاکت خیز حملوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد افغان قیادت ایک بار پھر پاکستان کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے۔
رواں ہفتے ہی افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ طالبان کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہ وہاں سرگرم ہیں۔ ان کے بقول ان تمام سرگرمیوں کو بند ہونا چاہیے۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو فون کر کے بتایا کہ پاکستان، افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی اسی نظر سے دیکھے جس سے وہ اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کو دیکھتا ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں افغانستان کا منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ اشرف غنی کی طرف سے پاکستان کے بارے میں شکایت بھرا پیغام سامنے آیا۔
اسلام آباد یہ کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اس عزم پر قائم ہے کہ اس ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اپنی حمایت اور تعاون جاری رکھے گا۔
وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے اور ان کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ہی افغان صدر کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس موقف کو ثابت کرے۔
گزشتہ ماہ ہی پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی اور اس امن عمل کے سلسلے کی دوسری ملاقات بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان میں ہونا تھی۔
لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد یہ ملاقات موخر ہو گئی تھی اور طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کیا۔ نئے امیر کے تقرر کے ساتھ ہی افغان طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں اور افغانستان میں ایک ہی ہفتے کے دوران طالبان نے متعدد ہلاکت خیز حملے کیے۔
باور کیا جاتا ہے کہ ملا اختر منصور پاکستان میں کہیں روپوش ہیں اور افغان وفد اپنے دورہ اسلام آباد میں پاکستانی عہدیداروں سے اس ضمن میں بھی اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کرے گا۔