افغانستان میں بدامنی سے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری تھی۔ یہاں شوبز اور فلم انڈسٹری کا وجود طالبان کے دور حکومت میں تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ لیکن، کچھ افراد کی محنت اور کوششیں رنگ لائیں اور افغان فلموں کا بڑا ذخیرہ بربادی سے بچ گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کے مطابق، 1996 سے 2001 تک طالبان کے دور اقتدار میں سینما اور میوزک پر مکمل پابندی تھی اور بہت سی افغان فلموں کی ریلیں ریلیز سے قبل ہی جلا دی گئیں۔ لیکن، اس عالم میں بھی چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر سات ہزار افغان فلموں کو بربادی سے بچا لیا۔
افغان ثقافتی ورثے کو بچانے میں پیش پیش حبیب اللہ علی تھے جو ہزاروں فلمیں اور فوٹیج طالبان حکومت کے اہلکاروں سے چھپانے میں کامیاب رہے۔ یہ ایک ایسا جرم تھا جس کی پاداش میں حبیب اللہ کی جان جا سکتی تھی۔
بقول اُن کے، ’’اگر طالبان کوپتا چل جاتا کہ ہم نے فلمیں چھپائی ہیں تو وہ ہمیں قتل کر ڈالتے۔ انہوں نے تلاشی تو لی لیکن کابل میں سرکاری فلم کمپنی افغان فلم کے دفتر کے مختلف حصوں میں چھپائی گئی سات ہزار فلمیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔‘‘
حبیب اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فلمیں حبیب اللہ اور ان کے ساتھیوں نے تباہ ہونے سے بچانے کے لئے چھپائی تھیں۔
دو عشرے بعد اب ان سات ہزار فلموں کو ڈیجیٹائز کیا جا رہا ہے۔ ان فلموں میں ایسی نایاب فلمیں اور فوٹیج بھی شامل ہیں جن کے ذریعے لوگ تشدد اور تباہی سے پہلے کے شاندار افغانستان کی جھلک بھی دیکھ سکیں گے۔
کئی سالوں کی کاوشوں پرمبنی فلموں کو ڈیجیٹائز کرنےکا پراجیکٹ کسی زمانے میں انتہائی مقبول افغان فیچر فلموں کو نہ صرف دوبارہ زندگی بخشے گا بلکہ نوجوان افغان پرامن افغانستان کی جھلک بھی دیکھ سکیں گے۔ ان کے لئے تشدد کے ماحول میں آنکھ کھولنے اور پروان چڑھنے والی افغان نسل کے لئے اپنے ملک کو پرامن دیکھنا بھی نیا تجربہ ہوگا۔
افغان فلم میں گزشتہ 36 سال سے کام کرنے والے ساٹھ برس کے حبیب اللہ علی اس بات پر شکر کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے ثقافتی ورثے کو بچانے میں کامیاب رہے اور اب یہ ورثہ نئی آب و تاب سے سامنے آئے گا۔
ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل فوٹیج کو ڈیجیٹائز کرنے کے عمل کی نگرانی افغان فلم ڈائریکٹر محمد ابراہیم عارفی کر رہے ہیں۔ اے ایف پی سے گفتگو میں عارفی کا کہنا تھا کہ ریلوں کو کنستروں اور ڈرموں پر غیرملکی اور بھارتی فلموں کا لیبل لگا کر چھپایا گیا تھا۔ ان ڈرموں اور کنستروں کو زمین کے اندر دبا دیا گیا تھا۔ کچھ ریلیوں کو ایسے کمروں میں چھپایا گیا جنہیں اینٹوں کی دیوار بنا کر بلاک کردیا گیا اور مصنوعی چھت بنا دی گئی۔ انہوں نے ریلیوں کو بچانے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا۔
عارفی نے بتایا کہ بتیس ہزار گھنٹوں کی سولہ ملی میٹر فلم اور آٹھ ہزار گھنٹوں کی پینتیس ایم ایم کی فلم ہے۔ لیکن کیٹلاگ کرنے کا عمل ابھی جاری ہے کیونکہ لوگ بھی بڑی تعداد میں وہ فلمیں جمع کرانے آرہے ہیں جوانہوں نے طالبان سے چھپا لی تھیں۔ میں فی الحال یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم پچاس ہزار یا پھر ایک لاکھ گھنٹے مکمل کریں گے۔
فلم کو ڈیجیٹل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ پہلے ریلیوں کو مٹی اورگرد سے پاک کیا جاتا ہے۔ پھر پروجیکٹر سے فلم دیکھی جاتی ہے۔ فلم کا نام، تاریخ اور ریل نمبر کی کیٹلاگ بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ فلم ہے یا پھر ڈاکیومنٹری۔ آخر میں ایسی مشین سے گزارا جاتا ہے جو فلم کو فریم بائی فریم ڈیجٹل کر دیتی ہے۔
افغان فلم میں کام کرنے والے فیاض لطفی کے مطابق اگر فیچر فلم ہو تو ڈیجیٹل کرنے میں چار دن بھی لگ جاتے ہیں۔ اگر نیوز امیجز ہوں تو ایک دن میں یہ کام ہو جاتا ہے۔ جو کام کر رہے ہیں اس پر فخر ہے، کیونکہ ہم افغانستان کے مردہ کلچر میں جان ڈال رہے ہیں۔ ہم اس ملک کی تصویری تاریخ کو ڈیجیٹل کر رہے ہیں۔
فلموں کو ڈیجیٹل بنانے کا کام رواں سال شروع کیا گیا ہے اور ابراہیم عارفی کو امید ہے کہ فلموں کی لائبریری دوسال میں مکمل ہوجائے گی۔
پیچھے کی جانب سفر
سن ستر کے عشرے میں افغان حکومت کی جانب سے پروڈیوس کی جانے والی فلمیں عوام میں بہت مقبول تھیں۔ فارسی اور پشتو زبانوں میں بننے والی فلمیں محبت، دوستی اور کلچر کے موضوعات کے گرد گھومتی تھیں۔ سن بیس کے عشرے سے لے کر سن ستر کے عشرے کے آخر تک کی ڈاکیومنٹری فوٹیج میں خانہ جنگی، طالبان کا دور حکمرانی، سولہ سال کی امریکا کی جنگجوؤں کے خلاف جنگ اور شیعہ کمیونٹی پر داعش کے حالیہ حملوں کی عکاسی ہے۔
کابل میں امریکی سفارتخانے میں منتخب امیجز کی نمائش کی گئی جس میں افغانستان کے مختلف ادوار کو دکھایا گیا۔ تصویروں میں ہنستے مسکراتے پارکوں میں پکنک مناتے خاندان اور شارٹ اسکرٹ پہنے ہنسی مذاق کرتی خواتین نمایاں ہیں۔
چونتیس سال کے عارف احمدی نے کہا ’’میں وہ تصویریں دیکھتے ہوئے جذباتی ہو گیا تھا کیونکہ میری افغانستان سے متعلق یادیں بہت تلخ ہیں۔ میں اتنا خوش قسمت نہیں کہ اس دور میں ہوتا۔ دوسرے ملکوں کو دیکھیں تو وہ آگے جا رہے ہیں۔ لیکن، ہمارے ملک پرنظر ڈالیں تو وہ پیچھے جا رہا ہے۔‘‘