پاکستانی وزیر اعظم نے افغانستان کے ساتھ ’’مشترکہ چوکسی‘‘ کی پیش کش کی ہے، تاکہ دہشت گرد گروپوں اور اُن کے محفوظ ٹھکانوں کی باہمی طور پر تصدیق کی جا سکے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منگل کو غیر ملکی صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں جو کچھ درکار ہے، پاکستان مکمل طور پر اور کھلے دل کے ساتھ وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہے ‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ باہمی سطح پر تصدیق کے طریقہٴ کار کی تفاصیل وضع کی جا سکتی ہیں۔ لیکن، عباسی نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے سلسلے میں افغانستان مزید کام کرے۔
بقول اُن کے، ’’اگر آپ کو اعداد و شمار درکار ہیں تو افغانستان کی جانب سے بہت کچھ ہو رہا ہے، نہ کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں اتنا کچھ ہو رہا ہے‘‘۔
اس سے قبل، پاکستان اور افغانستان نے اپنی دونوں جانب کی سرحدوں پر مربوط، اضافی کارروائیاں کرنے سے اتفاق کیا تھا۔ پاکستان پر بارہا یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ شدت پسندوں کو تحفظ دے رہا ہے، جنھوں نے افغانستان کے اندر حملوں کی منصوبہ سازی کی ہے یا پھر حملے کیے ہیں۔
گذشتہ ماہ افغانستان کے بارے میں اپنے پالیسی بیان میں، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا۔ بقول اُن کے، ’’ہم پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں، طالبان اور دیگر گروہ جو خطے اور اس سے دور علاقے کے لیے خطرے کا باعث ہیں، کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے بارے میں مزید خاموش نہیں رہ سکتے‘‘۔
ٹرمپ نے پاکستان پر تنقید کی کہ اُس نے امریکی امداد میں اربوں ڈالر وصول کرنے کے باوجود، ’’اُنہی دہشت گردوں کو پناہ دی،جن کے خلاف ہم نبرد آزما ہیں‘‘۔
لیکن، عباسی نے کہا کہ اُس خطاب کے بعد امریکہ نے پاکستان کو کسی مخصوص اقدام کی نشاندہی نہیں کی۔ بقول اُن کے، ’’ہمیں اُن اقدامات کی فہرست موصول نہیں ہوئی‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اُن کا ملک دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اپنا تعاون جاری رکھے گا، جیسا کہ ماضی میں کرتا آیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے 70 سالہ تعلقات کو محض افغانستان کے حوالے سے نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔