افغانستان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے پیر کو طالبان کے تمام دھڑوں سے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں، بصورت دیگر مستقبل میں طے پانے والے کسی تصفیے میں ان کو شریک نہیں کیا جائے گا۔
کابل میں پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین پر مشتمل چار فریقی اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے بیان میں صلاح الدین ربانی نے کہا کہ ’’میں افغان حکومت اور عوام کی جانب سے طالبان کے تمام دھڑوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہمارا امن کا پیغام قبول کریں اور مذاکرات کی میز پر آئیں تاکہ سیاسی طور پر تمام تنازعات کو سیاسی طریقے سے حل کیا جا سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’طالبان کی طرف سے مذاکرات میں شرکت میں کسی بھی قسم کی تاخیر افغان عوام کی نظر میں ان کو تنہا کر دے گی۔ جن لوگوں نے امن کے عمل میں شرکت کا موقع ضائع کر دیا ان کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ کہ وہ ایک خود مختار، آزاد، مستحکم اور فلاحی افغانستان نہیں چاہتے اور ان کا مقصد بغاوت اور تباہی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ دسمبر میں پاکستان میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ نے افغانستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چار رکنی سٹیئرنگ کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا تھا جس کا ایک اجلاس گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہوا تھا۔
اجلاس کے بارے میں جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تمام فریقین نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ان کے درمیان دوستانہ، باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات ہونا ضروری ہیں۔
بیان کے مطابق چار رکنی گروپ کا آئندہ اجلاس 6 فروری کو اسلام آباد میں ہو گا۔
پاکستان نے اس سے قبل جولائی میں بھی افغان طالبان اور حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تھی اور اس سلسلے میں ایک براہ راست ملاقات کا انعقاد اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں کیا گیا تھا۔
مگر طالبان سربراہ ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور منسوخ کر دیا گیا تھا۔
نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ کے علاوہ اب چین بھی افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں اس وقت استحکام لانا بہت ضروری ہے۔
’’اور میں سمجھتا ہوں کہ (صدر) اوباما کا جو بیان تھا اب ہمیں اسے بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا کیونکہ امریکی صدر ایسے بیان نہیں دیتا کہ وہ چلتے پھرتے بیان دے رہا ہے۔ (انہوں نے بیان میں کہا تھا) کہ اگر یہاں پر استحکام نہ پیدا ہوا تو یہ خطہ کئی دہائیوں تک مستحکم نہیں ہو گا۔‘‘
صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے کانگریس میں اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں داعش کے خطرے کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک عدم استحکام رہے گا جس کا فائدہ نئی دہشت گرد تنظیمیں اٹھا سکتی ہیں۔
میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ ’’تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی قیادت کو، افغان قیادت کو چاہے وہ عسکری ہو یا سیاسی انہیں بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ ہمارا واسطہ پڑے کا افغانستان سے۔ اگر افغانستان مستحکم ہو گیا، پاکستان مستحکم ہو گیا تو پھر اس خطے کے لیے امید کی جا سکتی ہے، اگر ان دونوں میں استحکام نہ رہا تو پھر یہ پورے خطے کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔‘‘
2014 کے آخر تک بیشتر بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے افغان حکومت کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی اہم عمارتوں پر خود کش حملوں اور طالبان کی طرف سے افغانستان کے کئی علاقوں پر قبضے کی کوششوں کی بعد عالمی طاقتوں کی طرف سے ملک میں امن کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔