پاکستانی اور افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی کو دور کرنے اور مثبت تشخص اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے افغان صحافیوں کے ایک وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا دور کیا۔
دوطرفہ تعلقات میں میڈیا کے کردار سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیراہتمام منگل کو اسلام آباد میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا، جس میں افغان اور پاکستانی صحافیوں نے شرکت۔
اس مباحثے میں شریک افغانستان نیشنل جرنلسٹ یونین کے صدر فہیم دشتی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تو یہ نظر آتا ہے کہ دونوں جانب میڈیا کی طرف سے مثبت چیزیں پیش نہیں کی جا رہی ہیں اور ان کو بدلنا ہو گا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی اور افغان میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے ملک کے بارے میں غیر جانبدارنہ (حقائق پیش کریں) تاکہ اُن معلومات کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے لوگ درست فیصلہ کر سکیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ جلد ہی وہ پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کی افغانستان میں میزبانی کریں گے۔
پاکستانی صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ بعض اُمور سے متعلق افغان اور پاکستانی صحافیوں کی رائے بھی الگ الگ تھی لیکن اُن کے بقول اس دورے کے دوران بات چیت سے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع ملا۔
’’اگر پاکستان اور افغانستان کے جو میڈیا کے لوگ ہیں وہ ایک دوسرے سے بات چیت کر کے کشیدگی کافی کم کر سکتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ہیں انہیں بھی ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیئے اور یہ جو پاک افغان میڈیا ڈائیلاگ ہے دراصل یہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان باقاعدہ ڈائیلاگ کا پہلا مرحلہ ہے۔‘‘
سینیئر پاکستانی صحافی ضیا الدین کہتے ہیں کہ ’’(دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں) میڈیا کا کردار اس وقت صحیح طریقے سے ادا نہیں ہو سکتا جب تک پاکستانی صحافی افغانستان میں تعینات نا ہوں اور افغان صحافی پاکستان میں تعینات نا ہوں۔ مثال کے طور پر جب پاکستانی صحافی افغانستان سے رپورٹ کرے گا تو وہ اپنا بھی خیال رکھے گا اور اس ملک کا بھی خیال رکھے گا جہاں سے رپورٹ کر رہا ہے اور اس کا جو چینل ہے وہ بھی اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ ہمارا رپورٹر وہاں پر ہے تو وہ مخالفانہ تشہیر وہاں سے نہیں کرے گا۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی بندش کے بارے میں بھی پاکستانی صحافیوں کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
حامد میر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں پاکستان اور بھارت کی سرحد بند نہیں ہوتی چاہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کتنے خراب کیوں نا ہو جائیں تو پھر پاکستان اور افغانستان کا بارڈر بند نہیں ہونا چاہیے ۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کی جو حکومتیں ہیں ان کو چاہیے یہ معاملہ جلد از جلد حل کریں کیونکہ پاکستان اور افغانستان سرحد کے بند ہونے سے تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔‘‘
اس بارے میں صحافی ضیاالدین کا کہنا تھا کہ ’’ایک تو آپ بارڈر بند نہیں کر سکتے ہیں۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو خشکی میں گھرا ہوا ہے اور یہ ایک بین لاقوامی قانون ہے کہ ایسے ملک کی سرحد ہمیشہ کھلی رکھنی ہو گی اور اگر افغانستان (اقوام متحدہ کی) سلامتی کونسل میں چلا گیا اور انہوں نے ہمارے خلاف شکایت کی تو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی ایک نئی لہر کے بعد پاکستان نے 16 فروری سے افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد بند کر دی تھی۔
یہ اقدام دوطرفہ کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بھی بنا۔
اسی کشیدگی میں کمی کی کوشش کے ایک سلسلے میں برطانیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کا ایک اجلاس بدھ کو ہو رہا ہے۔
اس سہ فریقی اجلاس کے بارے میں پاکستان میں تعینات افغان سفیر عمر زخیلوال نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ کے اپنے صفحے پر ایک بیان میں لکھا کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر اپنے ملک کے وفد کی قیادت کریں گے جب کہ افغان سفیر عمر زخیلوال بھی اس میں شامل ہوں گے۔
پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز جب کہ برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیر مارک لائل گرانٹ بھی اس میں شامل ہوں گے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے باضابطہ طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔