افغان خاتون شربت گلہ کے ایک وکیل وفی اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی موکلہ افغانستان واپس جانے کی خواہش مند ہیں۔
وکیل وفی اللہ کے بقول پشاور میں تعینات افغان کونسل جنرل اور دیگر عہدیداروں نے پیر کو صوبائی ہوم سیکرٹری سے ملاقات کی اور اُنھیں بتایا گیا کہ شربت گلہ کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کو نہیں روکا جائے گا۔
’’افغان سفارت خانے کے وفد نے اُن (شربت گلہ) سے ملاقات کی اور ہم بھی اُن کے ساتھ تھے۔۔۔ شربت گلہ نے کہا کہ اس کا یہاں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔ لہذا مقررہ وقت جو منگل کو پورا ہو رہا ہے اور بدھ کو اس کی ملک بدری کی تاریخ ہے تو اس تاریخ کو وہ اپنے ملک واپس جانا چاہتی ہے۔‘‘
شربت گلہ کو گزشتہ ہفتے پشاور کی ایک ذیلی عدالت نے پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ بنوانے کے جرم میں 15 دن قید اور ایک لاکھ 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
شربت گلہ کی طرف سے جرمانہ فوری طور پر جمع کروا دیا گیا تھا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت کے ایک ترجمان مشتاق غنی نے کہا کہ اُن کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے کہا تھا کہ کیوں کہ شربت گلہ کو علاج کی ضرورت ہے اور اگر وہ یہاں رہنا چاہیں تو اُنھیں رکھا جائے گا۔
پاکستانی حکام کے مطابق شربت گلہ کو جیل میں رکھنے کی بجائے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسپتال میں رکھا گیا ہے جہاں اُن کا علاج جاری ہے۔
شربت گلہ 1980ء کے دہائی میں افغانستان میں لڑائی کے سبب دیگر لاکھوں افغانوں کی طرح اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھیں، اس عرصے کے دوران معروف جریدے نیشنل جیوگرافک نے اپنے ایک شمارے کے سرورق پر ان کی تصویر شائع کی۔ اس وقت ان کی عمر 12 سال تھی جس کے بعد وہ 'افغان مونا لیزا' کے نام سے پکاری جانے لگیں۔
شربت گلہ کی گرفتاری پر نا صرف بعض پاکستانی حلقوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا جب کہ افغانستان کے عہدیداروں کی طرف سے بھی ان کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔