افغانستان میں مصالحت کے عمل کی کوششیں تو ایک عرصے سے جاری ہیں مگر، ابھی تک اس میں کوئی خاطرخواہ کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات آئندہ چند روز میں متوقع ہیں۔
افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ممالک کے گروپ نے گزشتہ ماہ ایک اجلاس کے بعد افغانستان میں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ان تازہ مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔ مذاکرات کی امید اس لئے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پہلے قطر اور پھر کابل کا دورہ کیا؛ اور پاکستان کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے اپنے دورہٴ امریکہ کے دوران بیان دیا ہے کہ مذاکرات پر مائل کرنے کے لئے پاکستان ملک میں موجود طالبان رہنماوٴں پر کچھ دباوٴ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سیاسی اور سفارتی حلقوں میں اس بیان کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر، شجاع نواز کہتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے پاکستان پر، بقول اُن کے، ’’دوغلی گیم کھیلنے‘‘ کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
بقول شجاع نواز، ’’سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے دوران، یہ طویل بیان ہے جو سامنے آیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو گول مول الفاظ میں بات ختم کر دیتے۔ مگر انہوں نے بہت صحیح اور واضح طور پر بتایا ہے کہ پاکستان اب کیا کرے گا۔‘‘
واشنگٹن کے تھنک ٹینک، ’ایٹلانٹک کونسل‘ سے منسلک، شجاع نواز سے جب پوچھا گیا کہ اِس بات کا کتنا امکان ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کر سکے گا، تو انہوں نے کہا کہ ’’ففٹی ففٹی چانسز ہیں‘‘۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ افغان حکومت کوئی ردعمل دکھائے، جس سے طالبان کا اعتماد بڑھے کہ بات چیت سے کچھ فائدہ ہوگا۔ ’’طالبان کا مؤقف رہا ہے کہ آپ ہم سے جو توقع کر رہے ہیں اس کے بدلے میں آپ ہمیں کیا دیں گے‘‘۔َ
مگر، ’نیویارک ٹائمز‘ سے منسلک صحافی، کارلوٹا گال، جو ایک طویل عرصے تک افغانستان اور پاکستان سے رپورٹنگ کرتی رہی ہیں، اُن کے خیال میں، ان مذاکرات کا امکان ’’بہت کم ہے‘‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اس بارے میں باتیں تو بہت ہو رہی ہیں اور افغان صدر اشرف غنی نے ان مذاکرات کے لئے بہت کوشش بھی کی ہے، مگر یہ عمل آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’گذشتہ چودہ پندرہ برس میں افغان بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اب وہ طالبان کو اقتدار دینے کے لئے تیار نہیں۔ کابل میں جن لوگوں نے سیاسی عمل کی کامیابی کے لئے اتنی کوشش کی ہے وہ طالبان کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’طالبان کو کیا دیا جاسکتا ہے۔ شائد کچھ صوبوں میں اقتدار انہیں دیا جائے۔ یا ممکنہ طور پر کچھ وزارتیں دی جائیں۔ وزارت انصاف ان کے حوالے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا وہ ایک سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئیں گے۔ یا آئین میں تبدیلی؟‘‘
کارلوٹا کا خیال ہے کہ ’’ایسا کوئی بھی قدم ناقابل عمل ہوگا جو نہ تو اشرف غنی کو قابل قبول ہوگا اور نہ ہی سیاستدان، کاروباری حضرات، سول سوسائٹی اور نوجوان نسل کو‘‘۔
تو سوال اٹھتا ہے کہ اشرف غنی، جنہوں نے ستمبر 2014میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے ملک کے اندر تنقید کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے کوششیں شروع کیں، کیا مصالحتی عمل کی ناکامی کی صورت میں سیاسی طور پر کمزور پڑ جائیں گے۔
’دی رونگ اینمی‘ نامی کتاب کی مصنفہ کارلوٹا گال کا خیال ہے کہ اشرف غنی کو جیسے ہی معلوم ہوگا کہ وہ اپنا سیاسی اثاثہ کھو رہے ہیں، وہ ایک سیاستدان ہونے کے ناطے اپنا مؤقف تبدیل کر لیں گے، جیسا کہ حال ہی میں دیکھا گیا کہ وہ پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں اور افغانستان کو بچانے کے لئے عالمی مدد طلب کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی مخلوط حکومت میں پوزیشن کمزور پڑے گی اور سخت گیر مؤقف رکھنے والے عناصر زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔
بقول ان کے ’’اگر غنی سکیورٹی کی صورتحال بہتر کر سکیں امریکی امداد کی ترسیل کو یقینی بنا سکیں اور معیشت بہتر کر سکیں تو پھر شاید وہ محفوظ رہیں گے‘‘۔
گزشتہ سال طالبان رہنما ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد سے موجودہ رہنما ملا اختر منصور نے اپنی پوزیشن کافی مضبوط کی ہے اور افغانستان میں حملوں میں بھی شدت دیکھنے میں آئی ہے۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ملا عمر منصور مذاکرات میں شرکت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ تاہم، کچھ عسکریت پسند دھڑے شاید کسی بھی بات چیت کا حصہ بننے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اسی لئے، ماہرین کو خدشہ ہے کہ پہلے کی طرح، اس سال بھی افغانستان میں موسم بہار قتل و غارت اور بے چینی کا پیش خیمہ بنے گا۔