رسائی کے لنکس

ملا عمر کی موت کی خبر مصلحتاً پوشیدہ رکھی گئی: افغان طالبان


ملا اختر منصور (فائل فوٹو)
ملا اختر منصور (فائل فوٹو)

طالبان نے پیر کو اپنے نئے رہنما ملا اختر منصور کی سوانح عمری سے متعلق ایک دستاویز جاری کی، جس میں ملا عمر کی موت کی تاریخ اور اس خبر کو چھپائے رکھنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

افغان طالبان نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دو سال تک اپنے رہنما ملا عمر کی موت کی خبر کو چھپائے رکھا۔

پیر کو طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی ایک دستاویز میں ملا عمر کی موت کی تاریخ 23 اپریل 2013 بتائی گئی ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے ملا عمر کی موت کے اعلان میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ ان کا انتقال 2013 میں ہوا۔

طالبان نے پیر کو اپنے نئے رہنما ملا اختر منصور کی سوانح عمری سے متعلق ایک دستاویز جاری کی، جس میں ملا عمر کی موت کی تاریخ اور اس خبر کو چھپائے رکھنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملا عمر کی موت کی خبر اس لیے خفیہ رکھی کیونکہ غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل 2013 کو ’’مزاحمت اور جدوجہد کا‘‘ آخری سال سمجھا جا رہا تھا۔

یاد رہے کہ نیٹو افواج نے 2014 میں افغانستان میں اپنے لڑاکا مشن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور اب وہاں بین الاقوامی افواج کے لگ بھگ 13,000 اہلکار تعینات ہیں جن کی اکثریت افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور معاونت کے لیے موجود ہے۔

گزشتہ ماہ افغان حکومت کی جانب سے ملا عمر کی وفات کے اعلان کے بعد ملا اختر کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ مگر ملا عمر کے اہل خانہ نے ان کی تقرری پر اعتراض کیا تھا جس سے طالبان دھڑوں میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں جنہیں حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ملا اختر نے ’’اپنے آپ کو اس منصب کے لیے کبھی نامزد نہیں کیا بلکہ مجلس شوریٰ کے اراکین اور مذہبی رہنماؤں نے انہیں قائد کے طور پر منتخب کیا۔‘‘

پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل اس دستاویز کو بظاہر افغان طالبان کے درمیان قیادت کے معاملے پر تنازع کے پس منظر میں ملا اختر کی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے جنہیں ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔

قیادت کے معاملے پر افغان طالبان کے آپسی اختلافات کی وجہ سے امن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات پاکستانی کی میزبانی میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقامی مری میں ہوئے تھے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں میں تعاون کے لیے تیار ہے لیکن اس کا فیصلہ خود افغانوں ہی کو کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان سے کیسا تعاون چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG