افغانستان میں طالبان نے جنوبی صوبہ ہلمند کے اہم ضلع سنگین پر حملہ کر کے وہاں کئی اہم مقامات پر قبضہ کر لیا ہے۔
اُدھر پیر کو سنگین کے اردگرد افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے جب کہ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق طالبان صوبے کے ایک اور ضلع کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ہلمند کے گورنر میرزا خان رحیمی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پورا صوبہ طالبان کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔
اُدھر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے سلامتی سے متعلق وزراء سے ملاقات کے بعد ہلمند میں فوری کارروائی کے عزم کا اظہار کیا۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ فورسز کی کارروائی ’دشمن‘ کے حملوں کو پسپا کر دے گی۔ جب کہ دیگر افغان عہدیداروں نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ ہلمند کو طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیا جائے گا۔
اتوار کو دیر گئے سنگین پر قبضے سے قبل نائب صوبائی گورنر محمد جان رسول یار نے متنبہ کیا تھا کہ اگر فوری طور پر اقدام نہ کیے گئے تو ہلمند طالبان کے قبضے میں "جانے کی نہج پر پہنچ چکا ہے"۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ ان کے جنگجو ضلع کے انتظامی مرکز پر قابض ہیں اور ان کے بقول پسپا ہوتی افغان سکیورٹی فورسز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔
مقامی میڈیا نے صوبائی حکام کے حوالے سے محصور اہلکاروں کی تعداد 150 کے لگ بھگ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری طور پر علاقے میں فضائی مدد نہ پہنچائی گئی تو یہ مارے جائیں گے۔
حکام نے ان اہلکاروں کی پسپائی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کئی روز تک خوراک اور اسلحے کی عدم فراہمی جیسی صورتحال سے دوچار رہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر طالبان اس طرح کے حملوں کے بعد پسپا ہوتے ہیں تو اس سے اُن ہی کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
’’میرا خیال ہے کہ طالبان میں اس وقت دو رائے ہیں۔ ایک گروپ یہ کہتا ہے کہ قندوز پر قبضہ کر کے غلطی ہوئی ہے کیونکہ جس علاقے پر قبضہ کر کے آپ قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے اس پر کیوں آپ قبضہ کریں کیونکہ آپ اپنا بھی نقصان کریں، ۔۔۔۔ اسی طرح لشکر گاہ جو ہلمند کا دارالحکومت ہے وہاں بھی یہی حالت ہے کیونکہ وہ اگر اس پر قبضہ کر کے اسے برقرار رکھ سکتے ہیں پھر تو بات بنتی ہے لیکن اگر دوبارہ دس دن کے بعد خالی کرنا ہے پھر تو طالبان کی ناکامی ہو گی لوگ ان کے خلاف ہو جائیں گے اور بڑا نقصان ہو جائے، شہر تباہ ہو جائے گا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا، یہ ساری باتیں طالبان کے خلاف جاتی ہیں‘‘۔
اس سے قبل رواں سال ستمبر میں افغان طالبان نے صوبہ قندوز پر کچھ روز کے لیے قبضہ کیا تھا تاہم افغان فورسز نے ملک میں موجود امریکی افواج کے تعاون سے قندوز سے طالبان کا قبضہ چھڑوا لیا تھا۔
طالبان کی طرف سے نومبر میں بھی ضلع سنگین پر حملے کے دوران 60 سے زائد افغان فوجی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ 70 سے زائد نے عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
یہ ضلع بین الاقوامی افواج کے لیے بھی ہلاکت خیز افغان علاقوں میں سے ایک رہا ہے جہاں انھیں 13 سالہ جنگ کے دوران بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
ادھر ضلع گریشک سے بھی شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہاں فریقین کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ہلمند کے نائب صوبائی گورنر رسول یار نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر صدر اشرف غنی کو مطلع کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ عسکریت پسند تیزی سے صوبے میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور یہ ان کے قبضے میں جانے کی نہج پر کھڑا ہے۔ ان کے بقول افغان سکیورٹی فورسز کے 90 اہلکار گزشتہ دو روز کی لڑائی میں مارے جا چکے ہیں۔
"براہ مہربانی ہلمند کو سانحے سے بچائیں۔ ان جھوٹوں کی بات نہ سنیں جو آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہلمند محفوظ ہے۔"
اگر ہلمند طالبان کے قبضے میں چلا جاتا ہے تو یہ حکومت کے ان دعووں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہو گا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد افغان سکیورٹی فورسز تنہا عسکریت پسندوں کا مقابلہ کر رہی ہیں اور عسکریت پسندی کو قابو کر رہی ہیں۔