انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کے شبہے میں افغان عورتوں اور لڑکیوں کو سرکاری ڈاکٹروں کی جانب سے ’’کنوارپن کا ٹیسٹ‘‘ کروانے پر مجبور کیا جاتا ہے جن کی کوئی سائنسی حیثیت نہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو معزول کیے جانے کے پندرہ سال بعد بھی عورتوں کی زندگیوں میں بہتری ایک بڑا چیلنج ہے۔
افغنانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ایک تحقیقی مطالعے کے دوران ملک کے مختلف صوبوں میں 53 عورتوں اور لڑکیوں کے انٹرویو کیے گئے جن میں سے 48 نے کہا کہ گھر سے بھاگنے یا غیر ازداوجی تعلقات کا الزام لگنے کے بعد حکام نے انہیں جنسی معائنہ کروانے پر مجبور کیا۔
یہ مطالعہ گزشتہ سال کیا گیا تھا، پیر کو ہیومن رائٹس واچ نے اس مطالعے کے نتائج شائع کیے۔
کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’متاثرہ عورتوں کی رضامندی کے بغیر ان کا جسمانی معائنہ کیا گیا۔ اسے جنسی طور ہراساں کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹیسٹ افغانستان کے آئین کی روح اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکثر اوقات یہ ٹیسٹ، جس میں ناگوار جنسی معائنہ بھی شامل ہوتا ہے، مرد محافظوں اور دیگر افراد کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور اکثر ’’تشدد‘‘ کے برابر ہوتا ہے جس کے ’’ہولناک نتائج‘‘ برآمد ہوتے ہیں۔
اس ٹیسٹ کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ عورت کا کسی سے غیر ازدواجی جنسی تعلق تو نہیں تھا مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے معائنوں سے اس بات کا پتا چلانا ناممکن ہے۔
رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ ان ٹیسٹوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔
جن لڑکیوں کو ایسی ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا گیا ان میں 13 سال کی کم عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان میں ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جن پر الزام تھا کہ وہ بغیر اجازت گھر سے باہر گئیں۔ افغان قانون میں عورتوں کو گھر سے نکلنے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
ایک تہائی سے زائد عورتوں نے بتایا کہ انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ معائنہ کروانے پر مجبور کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسے قدامت پسند معاشرے میں جہاں عورتوں کے کنوارپن کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اس طرح کے جارحانہ معائنے کے عورتوں کے ذاتی وقار، جذباتی صحت اور معاشرے میں حیثیت پر بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کمیشن نے کہا کہ شادی کے بعد جو عورتیں اپنا کنوارپن ثابت کرنے میں ناکام رہیں انہیں تشدد کا سامنا رہا ہے اور کچھ کو قتل بھی کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی سینیئر تحقیق کار ہیدر بار نے ایک بیان میں کہا کہ ’’افغان حکومت کی طرف سے غیر سائنسی اور توہین آمیز ’کنوارپن کے معائنوں‘ کا استعمال ملک میں عورتوں سے بدسلوکی کے وسیع تر رویوں کی عکاسی کرتا ہے جہاں عورتوں کو ’اخلاقی جرائم‘ کے جھوٹے الزامات کے تحت قید کیا جاتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے معائنوں پر پابندی عائد کرے اور ایسی عورتوں کو گرفتار کرنا بند کرے جن پر الزام ہو کہ وہ گھر سے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔