افغانستان میں حکام نے بتایا ہے کہ صوبہ پکتیا کے ایک گاؤں میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک کرکٹ میچ کے دوران فائرنگ کر کے دو افراد کو ہلاک اور دیگر متعدد کو اغوا کر لیا ہے۔
صوبائی پولیس کے سربراہ جنرل زلمے اوریا خیل نے ہفتہ کو بتایا کہ یہ واقعہ دو دن قبل ضلع زازی اریوب کے ایک گاؤں میں پیش آیا اور مرنے والوں میں ایک پولیس اہلکار اور ایک عام شہری شامل ہیں۔
ان کے بقول پانچ افراد اس میں زخمی بھی ہوئے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مطابق قائم مقام صوبائی گورنر عبدالولی سھی کا کہنا ہے کہ 36 افراد کو اغوا کیا گیا جن میں اکثریت نوعمر لڑکوں کی ہے۔
تاہم جنرل اوریا خیل کا کہنا تھا کہ ان میں سے چند کو بازیاب کروایا جا چکا ہے۔
تاحال اس واقعے کی ذمہ داری کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے لیکن حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس میں طالبان شدت پسند ملوث ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں طالبان سرگرم ہیں جب کہ حال ہی میں انھوں نے افغانستان میں اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں ان کی طرف سے ہلاکت خیز حملے بھی کیے جا چکے ہیں۔
ادھر شمالی صوبے قندوز میں تقریباً دو ہفتوں سے طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں جاری ہیں جن میں اب تک درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کا بتایا جا چکا ہے۔
ایک روز قبل ہی اس علاقے کے لیے فضائی سروس معطل کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے قندوز شہر کا فضائی رابطہ باقی ملک سے عارضی طور پر منقطع ہو چکا ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں تمام بین الاقوامی افواج کا لڑاکا مشن تیرہ سال بعد اپنے اختتام کو پہنچا اور یہ فوجیں اپنے اپنے ملکوں کو واپس جا چکی ہیں۔
ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کو منتقل تو کی جا چکی ہیں لیکن ساتھ ہی طالبان کے خلاف ان کی استعداد کار پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ایک معاہدے کے تحت اس وقت بھی لگ بھگ 12000 بین الاقوامی فوجی افغانستان میں تعینات ہیں جن میں اکثریت امریکی اہلکاروں کی ہے۔ یہ فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کر رہی ہیں۔