رسائی کے لنکس

'بدعنوانی افغانستان کے بہتر مستقبل کی راہ میں رکاوٹ ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل جان سو پکو کا کہنا ہے کہ بدعنوانی نا صرف عام شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہے بلکہ اگر اس کو کنٹرول کو نا کیا گیا تو ملک کے مستقبل کے لئے بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو’ ’ایس آئی جی اے آر ‘‘یعنی 'اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن' نے کہا کہ " لوگوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ بدعنوانی صرف پیسے کی نہیں ہوتی۔۔۔اس کا تعلق زندگی سے بھی ہے۔"

خصوصی انسپکٹر جنرل کا کام افغانستان میں تعمیر نو اور دیگر مقاصد کے لئے امریکہ کی طرف سے اب تک فراہم کی جانے والی ایک سو 13 ارب ڈالر کی امداد کی نگرانی کرنا ہے۔

"(دہشت گردی کے خلاف) جنگ کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ بدعنوانی ہے۔ بدعنوانی افغان حکومت (کے وسائل) کی چوری ہے۔ بدعنوانی اصل میں تنخواہوں اور ہتھیاروں کی خرد برد ہے، یہ سرکاری ایندھن کی خرد برد ہے۔"

انہوں نے ایک ٹھیکہ جس میں دہشت گردوں کی طرف سے نصب بموں سے سڑکوں کو محفوط بنانا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹھیکہ ایک امریکی کمپنی کو دیا گیا تھا جس میں افغان (کمپنی) نے کام کرنا تھا۔ لیکن رقم خرد برد کر لی گئی اور ضروری کام نا کیا گیا۔

سو پکو نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ "اس کے نتیجے میں فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔ ۔۔جہاں بدعنوانی کی وجہ سے فوجیوں کو مناسب گولیاں اور بندوقیں میسر نہیں تھیں۔ ان کے پاس کافی ایندھن، خوراک یا کافی طبی سامان اس لئے نہیں تھا کہ یہ خرد برد کر لیا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ "افغان عوام کو بھی اس پر اسی طرح اس پر رنج ہونا چاہیئے جیسے مجھے اور امریکی ٹیکس دہندگان کو بدعنوانی سے متعلق ہے۔"

امریکہ کی طرف سے نائن الیون میں ملوث دہشت گردوں کو ختم کرنے کے افغانستان میں جب جنگ کا آغاز کی تو واشنگٹن اور دیگر امدادی اداروں نے افغانستان میں نئی حکومت کی بحالی اور تعمیر نو کے کئی منصوبے شروع کیے۔

اگرچہ ان منصوبوں کی وجہ سے کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں تاہم اس کے ساتھ سے بدعنوانی کا چیلنج بھی ایک ایسے ملک میں درپیش تھا جس کو پہلے سے ہی مختلف سطحوں پر اس کا سامنا تھا۔

سو پکو نے کہا کہ "امریکہ بھی غیر ارادی طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ ۔۔۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بہت تیزی کے ساتھ افغانستان جیسے چھوٹے ملک کو بغیر کوئی نگرانی کے طریقہ کار کے بہت زیادہ رقم فراہم کی۔"

انہوں نے کہا کہ جب اس طرح کی صورت حال درپیش ہوتی ہے تو بدعنوان افراد خرد برد کریں گے اور پھر وہ عہدیداروں کو بھی رشوت دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لئے امریکہ کو افغانستان کو بھیجے جانے والے اربوں ڈالر کی امداد کی موثر نگرانی کر کے ایک بہتر کردار ادا کر سکتا تھا۔

ایس آئی جی اے آر کو 2010 ء میں قائم کیا گیا تھا اور سوپکو جو محکمہ انصاف کے سابق پراسیکوٹر ہیں، کو دو سال بعد اس ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے دیکھا کہا اگرچہ افغانستان کو فراہم کی جانے والی بہت ساری امداد ضائع ہو گئی تاہم اس کا باقی کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نظر ہو گیا لیکن یہ سب افغان عہدیداروں کی جیب میں نہیں گیا تھا۔

سوپکو نے کہا کہ "ہم نے 100 ٹھیکیداروں، امریکی حکومت کے ملازمین، امریکی فوج کے ملازمین کو گرفتار کر لیا تھا اور اب وہ قید کاٹ رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "ہم نے ایک ارب ڈالر بطور جرمانہ اور رقم کی واپسی کے طور پر برآمد کیا ہے۔"

ایس آئی جی اے آر بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

افغانستان میں منشیات کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے بدعنوانی پر قابو پانا ضروری ہے اور اندرونی چیلنجوں سے نمٹنا انسداد دہشت گردی کے لئے ضروری ہیں۔

سوپکو نے افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈرجان نکولسن کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "منشیات کی غیر قانونی تجارت باغیوں اور انتہا پسندوں کی مدد کرتی ہے۔"

سوپکو نے کہا کہ اشرف غنی بھی افغانستان کا صدر بننے سے بہت سال پہلے ان چیلنجوں کا ذکر کر چکے ہیں۔

تاہم سوپکو نے کہا کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ افغان عوام اور نئی امریکی اتنظامیہ ان کے خلاف زیادہ موثر طور پر اقدامات کرے گی۔"

XS
SM
MD
LG