افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں ہونے والے ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کم از کم 12 مبینہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
صوبائی گورنر کے ترجمان احمد زئی عبدالزئی نے خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو اتوار کو بتایا کہ یہ کارروائی ہفتہ کو دیر گئے کی گئی اور اس میں تین افغان اور نو غیر ملکی عسکریت پسند مارے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع خوگیانی میں کیا گیا جہاں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان کے بقول مرنے والوں میں افغان طالبان کا ایک اہم کمانڈر بھی شامل ہے۔
ننگرہار میں رواں مہینے ہی اس سے قبل بھی بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے سے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی حملے میں کم ازکم 15 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے جب کہ ان کے آپسی اختلافات بھی اب پرتشدد صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔
ایک روز قبل ہی طالبان کے ایک منحرف دھڑے نے دوسرے فریق کے ان دعوؤں کو مسترد کیا تھا کہ ایک حملے میں ان کا اہم کمانڈر ملا منصور داد اللہ مارا گیا۔ اطلاعات کے مطابق داد اللہ منحرف دھڑے کے نائب کے طور پر کام کر رہا تھا۔
طالبان کے اس دھڑے نے رواں ماہ ہی ملا اختر منصور کی مخالفت کرتے ہوئے ملا محمد رسول کو اپنا امیر مقرر کیا تھا۔
اس دھڑے کے ترجمان منان نیازی نے ہفتے کو کہا کہ ملا منصور داد اللہ ’’شدید زخمی‘‘ ہوا مگر اس نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
ادھر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز کے کم از کم 70 اہلکاروں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان سے وفاداری کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی صوبہ ہلمند کے گورنر مرزا خان رحیمی کے مطابق سنگین صوبے میں ان فوجیوں نے اپنے ہتھیاروں سمیت اب طالبان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان قاری یونس کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے والوں میں افغان فوج کے پانچ کمانڈر بھی شامل ہیں۔
افغانستان کے جنوبی علاقے میں طالبان اور افغان فورسز کی لڑائیاں ہوتی آ رہی ہیں جن میں دونوں جانب بھاری جانی نقصان بھی ہو چکا ہے۔m