افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک میں شدت پسندوں کے حالیہ حملوں کی لہر کی مذمت کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا ہے کہ " اس سے ہار نہیں مانیں گے۔"
اتوار کو افغانستان میں یوم انسانی حقوق کے موقع پر ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر نے تمام مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ تشدد کی مذمت کریں۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تقریباً دو ہفتوں بعد افغانستان سے 13 سال بعد بین الاقوامی افواج کا انخلا مکمل ہونے جا رہا ہے۔
اس انخلا سے قبل جنگ سے تباہ حال ملک میں طالبان نے اپنی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے اور اس دوران شدت پسند غیر ملکیوں سمیت سرکاری عہدیداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
صرف ہفتہ کو ہی ملک کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں کے دوران 20 سے زائد افرارد ہلاک ہو گئے تھے جن میں بارودی سرنگیں صاف کرنے والے 12 رضا کار بھی شامل ہیں جنہیں جنوبی صوبہ ہلمند میں شدت پسندوں کے فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
کابل میں شدت پسندوں نے فائرنگ کر کے عدالت عظمیٰ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو بھی قتل کر دیا تھا۔
جب کہ جمعرات اور جمعہ کو دو غیر ملکی فوجی اور ایک جرمن شہری بھی شدت پسندوں کے حملوں میں مارے گئے۔
ستمبر کے اواخر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اشرف غنی پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے آرہے ہیں۔
ایک معاہدے کے تحت 2014ء کے بعد نیٹو اور امریکہ کے تقریباً 13 ہزار فوجی افغانستان میں رہ کر مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے خلاف ان کی معاونت کرتے رہیں گے۔
سابق صدر حامد کرزئی ان معاہدوں پر دستخط سے انکاری ہیں لیکن ان معاہدوں پر اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد دستخط کیے تھے۔