افغان اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ایک اتحاد نے کہا ہے کہ سلامتی کی صورت حال، مالی وسائل کی کمی اور اساتذہ کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں پیش رفت کو خطرہ لاحق ہے۔
جمعرات کو جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں اِن تنظیموں نے کہا ہے کہ افغانستان میں استحکام کا قیام اور شدت پسندی کا انسداد بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جب کہ ترجیح ترقیاتی منصوبوں کو دینی چاہیئے۔
افغانستان کے مختلف صوبوں میں 1,600 سے زائد طالبات، اُن کے والدین اور اساتذہ سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق ان وجوہات کے باعث ملک میں ناصرف اسکولوں کی تعداد ضرورت سے کم ہے بلکہ ان میں سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔
محققین نے غربت، کم عمری میں شادی اور سلامتی کی خراب صورت حال کو لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں خصوصاً دیہی علاقوں میں اسکولوں اور خواتین اساتذہ کی تعداد میں اضافے کی تجویز پیش کرتے ہوئے اسکولوں میں موثر حفاظتی اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
تاہم امدادی تنظیموں کے مطابق 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد محض 5,000 سے بڑھ کر 24 لاکھ ہو گئی ہے۔