کچھ عرصے سے واشنگٹن کے ان بیانات میں بتدریج تیزی آتی رہی ہے کہ آئی ایس آئی میں کم از کم کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو مبینہ طور پر افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن جمعرات کو امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین ایڈمرل مائیکل ملن نے یہ کہہ کر ہلچل مچا دی کہ طالبان کے ایک اتحادی، حقانی نیٹ ورک کی طرف سے کابل اور دوسرے مقامات پر حال ہی کیے جانے والے حملوں میں، آئی ایس آئی نے براہ راست ان کی مدد کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’حقانی نیٹ ورک صحیح معنوں میں پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک بازو کے طور پر کام کرتا ہے۔ آَئی ایس آئی کی مدد سے، حقانی کے کارندوں نے ٹرک بم کے حملے کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کیا اور ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا۔ ہمارے پاس اس بات کی مصدقہ انٹیلی جنس ہے کہ کابل میں 28 جون کو انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملے میں، اور دوسری چھوٹی چھوٹی لیکن موئثر کارروائیوں میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔‘‘
پاکستانی حکام کی طرف سے ان الزامات کی فوری، واضح اور سخت الفاظ میں تردید کی گئی۔ جنرل اشفاق کیانی نے حقانی گروپ کے لیے آئی ایس آَئی کی حمایت کی تردید کی اور ایڈمرل ملن کے الفاظ کو خاص طور سے افسوسناک کہا کیوں کہ، ان کے بقول، حال ہی میں اسپین میں ان کے درمیان خاصی تعمیری میٹنگ ہوئی تھی۔
پاکستان میں ایک سی آئی اے کنٹریکٹر کی گرفتاری، پاکستان کے قبائلی علاقے میں امریکی ڈرونز کے بار بار کے حملوں ، اور اسامہ بن لادن کے ٹھکانے پر امریکہ کے چھاپے سے تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حال ہی میں نئے تعاون کی باتیں ہو رہی تھیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ میں انٹیلی جنس کے ایک سابق تجزیہ کار مارون وینبام جو آج کل مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ ایڈمرل ملن کے تبصرے سے افغانستان کی جنگ کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں میں آئے دن کی تبدیلیوں سے امریکہ کی جھنجھلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ’’ہمیں خاص طور سے فوج پر غصہ ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ہمارے درمیان افہام و تفہیم کی بنیاد پر عملی رشتہ قائم ہے۔ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے درمیان وہ تعلقات باقی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب ہم پاکستانیوں سے ٹکر لینے کی پالیسی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ افغانستان میں اس کے طویل مدت کے اسٹریٹجک مفادات ہیں، اور اس کے پرانے حریف بھارت نے، جس طرح وہاں سفارتی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اپنے قدم مضبوط کیے ہیں، اس پر پاکستان کو تشویش ہے۔ ایڈمرل ملن نے کابل میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے پاکستان کی طرف سے عسکریت پسند حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کو استعمال کرنے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ممکن ہے وہ اسے اپنے تحفظ کی ضمانت یا علاقائی طاقت میں عدم توازن کا علاج سمجھتے ہوں لیکن تشدد باہر بھیج کر انھوں نے اپنی داخلی سکیورٹی اور علاقے میں اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور ان کی معیشت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کو مثبت راہ پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔‘‘
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹین فئیر کہتی ہیں کہ اگر پاکستان اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا، تو امریکہ کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے سامنے اور کیا چارہ کار ہے۔ ہم ڈرونز سے حملے کر رہے ہیں، اور اس کے لیے ہمیں کسی حد تک پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ آئی ایس آئی کے دہرے کھیل کو روکنے کے لیے ہمارے پاس کچھ زیادہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے معاملے میں ہم کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔ لشکرِ طیبہ اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں کے سلسلے میں، جنھیں پاکستان تیار کرتا رہتا ہے، ہمارے لیے کچھ کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا اگرچہ آئی ایس آئی ایک غیر ملکی تنظیم ہے جو دہشت گردی کی سرپرستی کرتی ہے، ہم اس کے بارے میں اعلان نہیں کر سکتے۔‘‘
ایڈمرل ملن کا تبصرہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اوباما انتظامیہ نے افغانستان سے امریکی جنگی فورسز 2014ء میں نکالنے اور ملک کی سکیورٹی افغان حکومت کے حوالے کرنے کےمنصوبے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ کو یہ اُمید بھی ہے کہ طالبان کے بعض عناصر اور افغان حکومت کے درمیان کسی قسم کی سیاسی مصالحت ہو جائے گی، اور پاکستان کا خیال ہے کہ اس عمل میں اس کا بھی کوئی رول ہو گا۔ لیکن ان اُمیدوں کو حال ہی میں سخت دھچکا لگا جب حال ہی میں افغانستان کے سابق صدر برہان الدین ربانی کو جو مصالحت کی کوششوں کی قیادت کر رہے تھے، قتل کر دیا گیا۔ مارون وینبام کہتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے پر حملے اور ربانی کے قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کو مصالحت کے مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے کے سلسلے میں امریکہ کی امیدیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ ان کے مطابق ’’یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ افغانستان میں ہمارے لیے صورت حال اتنی مشکل ہے کہ ہم یہ کہنے کو تیار ہیں کہ ممکن ہے کوئی ایسا سیاسی فارمولا جس کے ذریعے یہ معاملہ جلدی سے طے پا جا ئے۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی اس معاملے کو اتنی سنجیدگی سے کیسے لے سکتا ہے۔‘‘
سینیٹ کی سماعت میں ایڈمرل ملن کے ساتھ وزیرِ دفاع مارون وینبام بھی موجود تھے انھوں نے کہا کہ طالبان نے شہری علاقوں پر جو تازہ ترین حملے کیے ہیں، ان سے باغیوں کی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حالات امریکہ کے حق میں تبدیل ہو رہے ہیں۔