امریکی صدر کی جانب سے جنگ کے دوران ایک سینئر جنرل کو ان کے عہدے سے ہٹانا ایسا واقعہ ہے جو ایک طویل عرصے سے نہیں ہوا تھا۔ آخری بار ایسا قدم صدر ہیری ٹرو مین نے 1951 میں کوریا کی جنگ کے زمانے میں اٹھایا تھا جب انھوں نے جنرل ڈگلس میک آرتھر کو امریکی اور اتحادی فوجوں کی کمان سے بر طرف کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت پالیسی کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا تھا۔موجودہ کیس میں صدر نے جنرل سٹینلی میک کرسٹل کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے، سویلین حکام کا احترام نہ کرنے اور اپنے اسٹاف کے چوٹی کے ارکان میں اس قسم کے رویے کو فروغ دینے پر، ان کے خلاف کارروائی کی ہے ۔
ہیریٹج فاؤنڈیشن کی تجزیہ کار سِالی میک نمارا حال ہی میں افغانستان سے واپس لوٹی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میکرسٹل کی شخصیت انتہائی سحر انگیز ہے۔ ان سے سنگین غلطی سرزد ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایک المناک واقعہ رونما ہو گیا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ بغاوت کے انسداد کی جو پالیسی میک کرسٹل کی مد د سے تیار کی گئی تھی اور جسے گذشتہ دسمبر میں صدر اوباما نے منظور کیا اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔’’حکمت عملی وہی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ پیٹرئیس اپنا اسٹائل اپنائیں گے۔ لیکن ان کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اس کام کے لیے پوری طرح اہل ہیں۔‘‘
واشنگٹن کے سیاست دانوں اور ماہرین کا رد عمل بھی یہی تھا۔ میک کرسٹل کے برطرف کیے جانے پر تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی لیکن ان کی جگہ جنرل پیٹرئیس کے تقرر پر کافی حیرت ہوئی اور کسی قدر اطمینان محسوس ہوا۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران، واشنگٹن میں افغانستان کی حکمت عملی پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ جنوبی افغانستان میں توقع سے کم پیش رفت ہوئی ہے اور بعض فوجیوں نے یہ شکایتیں بھی کی ہیں کہ سویلین آبادی کو بچانے کی خاطر، باغیوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ افغان سکیورٹی فورسز کو تیار کرنے میں مسلسل مسائل درپیش ہیں اور افغان عہدے داروں میں کرپشن عام ہے۔
بہت سے ماہرین کو تشویش تھی کہ اگر کسی نسبتاً گمنام سے فوجی افسر کو یہ ذمہ داری دے دی گئی تو آنے والے مشکل مہینوں میں وہ افغان لیڈروں کے ساتھ معاملات میں موئثر ثابت نہیں ہو گا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنرل میک کرسٹل ان چند امریکی عہدے داروں میں شامل تھے جنھوں نے صدر حامد کرزئی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے ۔ جب صدر اوباما یہ طے کر رہے تھے کہ جنرل میک کرسٹل کے ساتھ کیا سلوک کریں، اس دوران صدر حامد کرزئی نے میک کرسٹل کے حق میں ایک بیان جاری کر دیا۔
سابق افغان وزیر داخلہ علی جلالی کہتےہیں کہ کابل میں لوگ میک کرسٹل کو بہت یاد کریں گے۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جگہ پیٹرئیس کا تقرر بڑادانشمندی کا فیصلہ ہے ۔ ’’جنرل میک کرسٹل کے افغان لیڈروں کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے ۔ صدر کرزئی کا خیال تھا کہ میک کرسٹل افغانستان کی صورت حال کی حساس نوعیت اور افغان کلچر کو سمجھتے ہیں۔ صدر کرزئی بہت خوش تھے کہ جنرل میک کرسٹل نے سویلین آبادی میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کم کرنے، آدھی رات کو ہوائی حملے اور گھروں کی تلاشی نہ لینے کے اقدامات کیے تھے۔‘‘
عراق میں 2007 اور 2008 میں جنرل پیٹرئیس کی کامیابی نے انہیں امریکہ میں، بلکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ مشہور جنرل بنا دیا۔ گذشتہ سال سے جنرل میک کرسٹل کے باس کی حیثیت سے وہ افغانستان کی نئی حکمت عملی کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔ بلکہ 2006 میں انسداد دہشت گردی کے لیے امریکہ نے جو نئی حکمت عملی تیار کی، اس کی تیاری میں بھی پیٹرئیس نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ پھر انہیں اسی حکمت عملی پر عمل در آمد کے لیے بغداد بھیج دیا گیا۔ اس حکمت عملی میں شہری آبادی کی حفاظت کرنا اور قصبوں اور شہروں کو محفوظ بنانا بہت اہم ہے چاہے اس کے نتیجے میں اتحادی فوجوں کے لیے خطرے میں اضافہ ہی کیوں نہ ہو جائے ۔اس کے ساتھ ہی میزبا ن ملک کی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مقامی حکومت کی صلاحیت کو بہتر بنانا بھی اہم ہے ۔
سینیٹر جوزف لیبر مین نےپیٹرئیس کے انتخاب کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ صدر نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں بغاوت کے انسداد کی حکمت عملی کے مطابق کوششیں جاری رہیں گی اور جنرل پیٹرئیس کی قیادت میں کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔
اس قسم کے خیالات سے جنرل میک کرسٹل کی برطرفی سے جو دھچکا لگا تھا اس کے اثرات کم ہو رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب افغانستان میں مزید 30,000 امریکی فوجی پہنچ رہے ہیں اور جنوب میں اہم کارروائیوں میں دشواریاں محسوس ہو رہی ہیں۔
سِالی میک نمارا تسلیم کرتی ہیں کہ پیٹرئیس سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنا کام نہایت اعلیٰ طریقے سے انجام دیں گے۔ ان کی شخصیت سے اعتماد کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ تا ہم وہ انتباہ کرتی ہیں کہ ان کا کام آسان نہیں ہے ۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب سے تین سال بعد، جیسا کہ عراق میں ہوا تھا، افغانستان میں حالات کہیں زیادہ مستحکم ہو جائیں گے ۔