افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کُنڑ میں طالبان عسکریت پسندوں نے افغان پولیس کے لگ بھگ 50 اہلکاروں کو اغواء کر لیا ہے۔
حکام نے تصدیق کی ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ہفتہ کی دوپہر ضلع چپہ درہ میں اُس وقت اغواء کیا گیا جب وہ ملحقہ صوبے نورستان سے گاڑیوں میں واپس آرہے تھے۔
نورستان کے گورنز جمال الدین بدر کے مطابق پولیس اہلکار غیر مسلح اور سادہ لباس میں تھے، جب کہ کُنڑ میں صوبائی پولیس کے سربراہ جنرل خلیل الله ضیائی نے بتایا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ تمام مغوی افغان نیشنل پولیس کا حصہ تھے یا اُن میں پولیس میں شمولیت کے خواہشمند افراد بھی شامل تھے۔
طالبان کے ترجمان زبیح الله مجاہد نے صحافیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجے گئے بیان میں کہا ہے کہ طالبان کو پہلے سے پولیس اہلکاروں کی نقل و حمل کی خبر تھی اور مشرقی افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی قیادت صورت حال کا جائزہ لے کر مغویوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
طالبان عسکریت پسند ماضی میں بھی نورستان اور دیگر علاقوں میں پولیس اہلکاروں کے اغواء میں ملوث رہے ہیں لیکن مغویوں کی جانب سے پولیس یا افغان حکومت کے لیے کام نا کرنے کی یقین دہانی کے بعد اُنھیں رہا کر دیا جاتا رہا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ یرغمال بنائے گئےاہلکاروں کو ایک مرتبہ پہلے بھی اغواء کیا گیا تھا لیکن اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ افغان حکومت کے لیے کام نہیں کریں گے اُنھیں رہا کردیا گیا تھا۔
کُنڑ اور نورستان صوبوں کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملتی ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔
پولیس اہلکاروں کے اغواء کا تازہ ترین واقعہ افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کو درپیش اُن مشکلات کی عکاسی بھی کرتا ہے جن کا سامنا سکیورٹی ذمہ داریوں کی افغان فورسز کو منتقلی کے عمل میں ہو سکتا ہے۔
افغان صدر نے رواں ہفتے اُن سات علاقوں کی نشان دہی کی تھی جہاں جولائی سے امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری بین الاقوامی افواج سے مقامی سکیورٹی فورسز کے سپرد کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔