افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں سیکڑوں افراد نے سڑکوں پر آ کر حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ صوبہ ننگرہار میں شدت پسند گروپ داعش اور طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کرے۔
مظاہرین نے داعش اور طالبان کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان گروپوں سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدام نہیں کر رہی۔
ننگرہار کی صوبائی کونسل کے ایک رکن اور مظاہرے کے منتظم ذبیح زمارے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہم اپنے اضلاع میں طالبان اور داعش کے خلاف نئی کارروائیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
مظاہرے میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ "ہم سروں کو قلم کیے جانے کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ چاہیئے کہ طالبان ہوں یا داعش ہم چاہتے ہیں انھیں اس سرزمین سے بے دخل کیا جائے۔"
داعش کے خلاف افغان فوج اور صوبائی پولیس کے علاوہ بعض طالبان دھڑے بھی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ضلع اچین میں رواں ہفتے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کو بڑھایا ہے۔
حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے ننگرہار میں افغان سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں داعش کے لگ بھگ 100 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
گزشتہ پیر کو افغان فوج کے ایک کمانڈر نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ 24 گھنٹوں کے دوران داعش کے 68 جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔
صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف ان کی فوجی کارروائیاں اس وقت جاری رہیں گی جب تک کہ پہاڑی علاقوں کو ان سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔
داعش کے شدت پسند ننگرہار کے مختلف اضلاع میں سرگرم ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس گروپ نے پاکستانی سرحد کے قریب اس افغان صوبے میں آٹھ مختلف قید خانوں میں تقریباً تین سو لوگوں کو بند کر رکھا ہے۔
داعش نے حال ہی میں ننگرہار میں ایف ایم ریڈیو بھی شروع کیا تھا جس میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹے کی نشریات کے ذریعے افغان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔