افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ کے سربراہ رحمت اللہ نبیل نے بظاہر صدر اشرف غنی سے اختلاف کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
رحمت اللہ نبیل نے یہ استعفیٰ ایسے وقت دیا جب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آئی اور رواں ہفتے قندھار کے ہوائی اڈے پر ایک مہلک حملہ کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ستمبر میں طالبان کے قندوز شہر پر قبضے کے بعد سے ہی افغان صدر اور انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔
جب کہ قندوز پر طالبان کے حملے کے بعد صدر اشرف غنی نے افغان ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ کے کئی عہدیداروں بشمول اس کے ایک صوبائی سربراہ کو برخاست کر دیا تھا۔
رحمت اللہ نبیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے بعض پالیسی معاملات پر عدم اعتماد تھا اور اُن کے بقول صدر نے نئی ناقابل قبول حدود و قیود وضع کر دی تھیں۔
لیکن افغانستان کے صدر کی طرف سے فوری طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ایک اہم ہوائی اڈے پر طالبان کے مہلک حملے میں حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 50 تک پہنچ گئی ہے۔
افغان حکام کے مطابق حملے کے بعد شروع ہونے والی جھڑپیں بدھ کو دیر گئے ختم ہوئیں۔ افغانستان کی وزارت دفاع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 38 عام شہری، 10 فوجی اور دو پولیس اہلکار شامل ہیں۔
طالبان نے منگل کو قندھار ’ائیر فیلڈ‘ پر حملہ کیا تھا اور طویل لڑائی کے بعد بدھ کی شب افغان حکام نے اعلان کیا کہ تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
افغاں عہدیداروں کے مطابق حملے میں ملوث 11 طالبان جنگجوؤں میں سے آخری جنگجو کو حملے کے 24 گھنٹوں بعد ہلاک کیا گیا۔
بھاری خودکار ہتھیاروں سے لیس خودکش بمباروں نے افغان سکیورٹی فورس کی ودریاں پہن رکھی تھیں۔ اُنھوں نے جس ہوائی اڈے پر حملہ کیا وہاں نیٹو کے فوجی بھی تعینات ہیں۔
لیکن حملے میں نیٹو کے کسی طرح کے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں 150 فوجی ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ شدت پسند عموماً اپنی کارروائیوں کے بعد ہونے والے جانی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
رواں سال ستمبر میں قندوز پر کچھ وقت کے لیے طالبان کی طرف سے قبضہ کرنے کے بعد قندھار کے ایک اہم ہوائی اڈے پر حملے سے طالبان کی عسکری صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قندھار میں یہ مہلک حملہ ایسے وقت ہوا جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کی۔
’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس کے بعد افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دریں اثناء جمعرات کو پاکستان میں امریکہ سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس کے موقع پر پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کا ایک چار فریقی اجلاس بھی ہوا۔
اس اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی، پاکستانی وزیراعظم نواز شریف، امریکہ کے نائب ویز خارجہ انتھونی بلنکن اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے اپنے ممالک کے وفود کی قیادت کی۔
اس چار فریقی اجلاس میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان باہمی اعتماد کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ امن مذاکرات، سیاسی و معاشی تعلقات میں وسعت اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کے لیے ساز گار ماحول تشکیل دیا جا سکے۔
اجلاس میں افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغانستان میں تشدد کے خاتمے اور استحکام کے لیے مصالحت ہی اس وقت تک سب سے موثر راستہ ہے۔
چار ممالک افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے ماحول کو فروغ دیا جائے جس سے طالبان کو با معنی مذاکرات میں شمولیت کے لیے راغب کیا جا سکے۔