افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز سے تین روزہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اس میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کے حوالے سے کہا ہے کہ جنگ بندی 17 جون کی رات ختم ہو رہی ہے جس کے بعد طالبان کی کارروائیاں شروع ہو جائیں گی۔ ’’اس میں توسیع کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ہفتہ کو افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے جنگ بندی میں یکطرفہ طور پر توسیع کا اعلان کیا تھا۔
اُدھر افغان طالبان نے مقامی کمانڈروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو اُن علاقوں میں جانے سے روکیں جو کہ حکومت کے زیر کنٹرول ہیں۔
عیدالفطر کے موقع پر طالبان کی طرف سے حکومت کی پیشکش کے جواب میں تین روز کی جنگ بندی کا آغاز کیا گیا تھا۔
لیکن ہفتہ کو مشرقی صوبہ ننگرہار میں عید منانے والے طالبان کے ایک اجتماع کو خودکش بمبار نے نشانہ بنایا جس میں 36 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس خودکش حملے کے بعد اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ننگرہار کے حملے کی طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے تمام جنگجوؤں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقامات اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں رہیں۔
طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ’’دشمن‘‘ نے جنگ بندی کے اہم موقع کا غلط فائدہ اٹھایا اور ایسے واقعات ممکنہ طور پر پھر بھی ہو سکتے ہیں اس لیے جنگجوؤں سے کہا گیا کہ وہ ہجوم اور اجتماعات سے دور رہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور تجزیہ کار ایاز وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس عارضی جنگ بندی کی افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بہت اہمیت ہے۔
’’اس سے پہلے طالبان نے کبھی جنگ بندی نہیں حالانکہ اس سے پہلے بھی پیشکش ہوئی تھی۔‘‘
ایاز وزیر نے کہا کہ ننگرہار میں خودکش حملے سے ’’میرے خیال میں دونوں طرف اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہو گی۔‘‘
اُدھر افغانستان کے مشترقی صوبے میں ننگرہار میں اتوار کو بھی ایک خودکش حملہ ہوا جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔
ملک میں تین روزہ جنگ بندی کے بعد ننگرہار میں یہ دوسرا خودکش حملہ ہے۔
حکام کے مطابق اتوار کو خودکش دھماکا جلال آباد میں صوبائی گورنرکے دفتر کے قریب ہوا۔