امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ اُن کی انتظامیہ افغانستان میں ’’انتہائی ٹھوس‘‘ امن مذاکرات کر رہی ہے، لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے آیا بات چیت کامیاب ہوگی۔
ٹرمپ نے یہ کلمات ’تھینکس گونگ‘ کے موقعے پر لڑائی میں الجھے ہوئے ملک میں تعینات امریکی فوجیوں کے ساتھ ٹیلی کانفرنس کال کے دوران کہی۔ اُنھوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ ہو سکتا ہے وہ افغانستان کا دورہ کریں، جہاں 11 ستمبر، 2001ء کے امریکی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے فوری بعد امریکی فوج کو تعینات کیا گیا تھا۔
صدر نے کہا کہ ’’اس وقت ہم افغانستان میں انتہائی ٹھوس مذاکرات کر رہے ہیں، جس کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے‘‘۔
’’ایسا پہلی بار ہوگا۔ لیکن، ہم افغانستان میں بہت، بہت ہی ٹھوس نوعیت کے مذاکرات کر رہے ہیں۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ہم امن کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور دیکھیں گے آیا ایسا ہوتا ہے‘‘۔
ٹرمپ، بظاہر امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی زلمے خلیل زاد کی جانب سے پہلے براہ راست مذاکرات کے حوالے سے بات کر رہے تھے، جس کا اُنھوں نے حالیہ دِنوں طالبان کے ساتھ آغاز کیا، جو امریکہ کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے خلاف مہلک بغاوت میں ملوث رہے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے کلمات میں کہا کہ ’’ہمارے مذاکرات جاری ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ اِن میں کامیابی ہوگی۔ شاید نہ ہو۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا؟ ہو سکتا ہے، شاید نہ ہو۔۔ عین ممکن ہے کہ یہ کامیاب ہوں، ہوسکتا ہے نہ ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں اس وقت مذاکرات جاری ہیں‘‘۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 17 برس قبل افغانستان فتح کیا اور طالبان کو اقتدار سے نکالا، جو القاعدہ کے رہنماؤں کی سرپرستی کرتے تھے، جنھیں امریکہ 11 ستمبر کے مہلک حملوں کی منصوبہ سازی کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ افغان فوجی مشن پر امریکہ کے تقریباً ایک ٹریلین ڈالر خرچ آئے ہیں، جب کہ 2400 سے زائد امریکی فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
تب سے، امریکی ’کمانڈر اِن چیف‘ ملک میں تعینات فوج اور دنیا بھر کے اُن علاقوں کا غیر اعلانیہ دورہ کرکے ملاقات کرتے رہے ہیں، جہاں فوج تعینات ہے۔
تقریباً دو برس سے جب سے اُنھوں نے عہدہ سنبھالا ہے، صدر ٹرمپ نے افغانستان کا دورہ نہیں کیا۔ اُنھوں نے جمعرات کو امریکی فوج کو بتایا کہ ’’ہوسکتا ہے میں وہیں آکر آپ سے ملاقات کروں۔ نہیں کہا جا سکتا، کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔
نائب صدر مائیک پینس گذشتہ دسمبر میں کابل کے شمال میں امریکی قیادت والے ’بگرام ایئر بیس‘ پر فوجوں سے ملاقات کی تھی۔