افغانستان میں سیاسی استحکام اور سلامتی کی صورت حال کو بہتر کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں 2010 ء میں کوئی ڈرامائی پیش رفت نہ ہوسکی ۔
امریکی قیادت میں ملک میں تعینات لگ بھگ ایک لاکھ پچاس ہزار نیٹو افواج نے طالبان عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی افغان صوبوں خصوصاََ ہلمند اور قندھار میں اہم آپریشن شروع کیے اور ان میں پیش رفت کے دعوے بھی کیے گئے۔
صدر براک اوباما نے 16 دسمبر کو افغانستان کے لیے اپنی جنگی حکمت عملی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی موثر ثابت ہورہی ہے لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ فوجی کامیابیاں نازک ہیں اور طالبان عسکریت پسند ان کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ ۔
امریکی صدر نے جولائی 2011ء میں سلامتی کی ذمہ داریاں افغانوں کو منتقل کرنے اور کچھ امریکی افواج کی وطن واپسی کا عمل شروع کرنےکےموقف کو دہراتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ 2014ء تک سکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں افغان حکومت کو سونپ دی جائیں گی۔
لیکن ناقدین اُس وقت تک افغان سکیورٹی فورسز کے اس قابل ہونے کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور غیر ملکی امدادی تنظیمیں 2010ء میں امریکہ اور نیٹو کی طرف سے فوجی کامیابیوں کے دعوؤں سے متفق نہیں۔
مارچ سے اکتوبر کے دوران مجموعی صورت حال پیش کرنے والے اقوام متحدہ کے خفیہ نقشوں کے مطابق ملک میں سلامتی کی صورت حال بتدریج ابتر ہوئی۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان نقشوں کی تفصیلات کے مطابق طالبان کی سرگرمیوں کے باعث شمالی اور مشرقی صوبوں کے سولہ اضلاع میں سلامتی سے متعلق خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہو ا۔
2010 ء میں لڑائی کے بار ے میں دستیاب اعدادوشمار سے بھی افغانستان میں سلامتی سے متعلق مقامی اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔
اقوام متحدہ نے سال کے آخر میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں لڑائی میں ہلاک یا زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہواجن میں تقریباََ پانچ ہزار طالبان شدت پسندوں کے حملوں کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ ساڑھے سات سو سے زائد شہر ی باغیوں کے خلاف افغان اور اتحادی افواج کی کارروائیوں کے دوارن زخمی یا ہلاک ہوئے۔
افغانستان میں نیٹو افواج کی ہلاکتوں کے اعدادوشمار جمع کرنے والی ایک انٹرنیٹ ویب سائیٹ کے مطابق کم ازکم 709 غیر ملکی فوجی اس سال ہلاک ہوئے ہیں جو نو سال پہلے شروع ہونے والی اس جنگ میں غیر ملکی فوجوں کا اب تک ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ ان میں 498 امریکی، 103 برطانوی اور 108 فوجیوں کا تعلق نیٹو اتحاد میں شامل دوسرے ملکوں سے ہے۔
جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان باغیوں کے ساتھ امن بات چیت اور انھیں سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی افغان صدر حامد کرزئی کی کوششیں بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہیں ۔اس مقصد کے حصول کے لیے سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں ایک اعلیٰ کمیشن قائم کیا گیا جبکہ افغان صدر نے طالبان اور کمیشن کے نمائندوں کے مابین ابتدائی نوعیت کے خفیہ رابطوں کا بھی انکشاف کیا ۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت مذاکرات کے سرکاری دعوؤں کو مسترد کرتی رہی۔
تاہم امریکہ اور نیٹوکی حمایت یافتہ قومی مفاہمت کی صدر کرزئی کی کوششوں کواُس وقت شدید دھچکا لگا جب امریکی اور افغان حکام نے اعتراف کیا کہ ملا منصور نامی طالبان کے جس رہنما سے بات چیت کی جارہی تھی وہ دراصل ایک بہروپیہ تھا جو پیسے بٹورنے کے بعد غائب ہوگیا ۔ اس انکشاف کے بعد امن کے قیام کے لیے پیدا ہونے والی عارضی اُمیدیں بھی بظاہر ختم ہوگئیں۔
افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے بارے میں امریکہ میں رائے عامہ کے جائزوں نے بھی اوباما انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے جن کے مطابق 63 فیصد امریکی اس جنگ کو جاری رکھنے کے مخالف اور صرف 35 فیصد حامی ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پاکستانی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی حکمت کو درپیش بڑا چیلنج اُن علاقوں پر حکومت کا قبضہ برقرار رکھنا ہے جنھیں عسکریت پسندوں سے خالی کرالیا جاتا ہے۔
” ابھی تک زمینی حقائق کے پیش نظر کوئی ایسی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے جس سے کسی بہتری کا ذکر کیا جاسکے ۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کرافغانستان کے اکثر علاقوں میں لوگوں میں یہ احساس بدستور موجود ہے کہ طالبان پھر واپس آجائیں گے۔“
ستمبر میں ملک کی پارلیمان کے ایوان زیریں ’اولسی جرگہ“ کی 249نشستوں کے لیے عام انتخاب کرائے گئے لیکن اس میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کے الزامات کے باعث نتائج کا اعلان دو ماہ کی تاخیر سے کیا گیا۔ افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے کُل56 لاکھ ووٹوں میں سے تیرہ لاکھ ووٹ بھی مسترد کردیے تھے۔
انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے دسمبر کے اواخر میں صدر کرزئی کی ہدایت پر سپریم کورٹ کا ایک خصوصی ٹرائی بیونل قائم کیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ 20 جنوری کو نئی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس سے پہلے یہ عدالتی کارروائی مکمل ہو سکے گی یا نہیں۔
ان حالات نے نئی افغان پارلیمان کے نمائندہ ایوان ہونے کے بارے میں اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں شکوک وشبہات کو جنم دیا ہے۔
سرکاری اداروں میں بدعنوانی میں اضافہ بھی افغانستان میں سیاسی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کے راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ۔
سال کے دوران امریکی رہنما بشمول صدر براک اوبامابدعنوانی کے خاتمے اور طرزحکمرانی کو بہتر کرنے کے لیے صدر کرزئی پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے لیکن مجموعی صورت حال میں بہتری کےآثار نظر نہیں آئے۔