رسائی کے لنکس

ایتھلیٹ کو کیوں ڈانٹا، اولمپکس کمیٹی کے سربراہ بھی بول پڑے


وسی اسکیٹر کمیلا والیوا, فائل فوٹو
وسی اسکیٹر کمیلا والیوا, فائل فوٹو

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صد ر تھامس باخ نے بھی دنیا بھر کے لوگوں کی طرح جمعہ کو روسی اسکیٹر کمیلا والیوا کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے ایتھلیٹ کے ساتھ سخت رویے پر روسی وفد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ آیا اولمپکس کے دوران اس پندرہ سالہ ایتھلیٹ کو اس طرح کے دباؤمیں رکھنا درست ہے۔

روسی وفد کے لیے اولمپکس کمیٹی کے سربراہ کے لہجے میں تبدیلی نے اولمپکس مبصرین کو حیران کردیا ہے، کیونکہ 2014 میں وہ بڑے ڈوپنگ اسیکنڈل کے باوجود روسی ایتھلیٹ کی وکالت کرتے رہے تھے۔ ان کی تنقید پر ماسکو نے جوابی تنقیدکی ہے۔

اسکیٹنگ کے دوران ایک غلطی پر اس کے کوچ نےاسے بری طرح ڈانٹا جس پر والیوا جذباتی ہوکر رونے لگی کیونکہ پورے ہفتے اس کے مثبت ڈرگ ٹیسٹ کا ڈرامہ چلتارہا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر اولمپکس کے لاکھوں ناظرین بھی آبدیدہ ہوگئے تھے ۔ تھامس باخ نےکہا کہ ان کے جذبات بھی اسی طرح تھے۔ وہ اپنی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ کل جب وہ ٹی وی پر مقابلہ دیکھ رہے تھے تو یہ دیکھ کر انھیں بڑی پریشانی ہورہی تھی۔

انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے سربراہ تھامس باخ، فائل فوٹو
انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے سربراہ تھامس باخ، فائل فوٹو

انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے لیڈر نےاپنی تنقید میں روس کی ویمن ٹیم کے کوچ کو نشانہ بنایا لیکن کسی اور کا نام نہیں لیا۔ اس تنقید کے دوران ان کی وہاں موجود ایک روسی رپورٹر سے بحث بھی ہوگئی ۔ بعد میں کریملن کی ترجمان دمتری پیسکاف نے باخ کے بارے میں کہا ہے انھیں ہمارے کوچ کی سختی پر اعتراض ہے حالانکہ ہر کسی کو پتہ ہے کہ اس طرح کے اہم ترین کھیلوں میں کوچز کی سختی ہی اسٹوڈنٹ کی کامیابی کی کلید ہے۔

گزشتہ نو برس کے دوران جب سے باخ انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے صدر ہیں ہے، روس کا یہ پانچواں اسکینڈل ہے۔ اس کے باوجود ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 کے ڈوپنگ یا طاقت بڑھانے والی ادویات استعمال کرنے کے اسکینڈل اور دیگر غیر قانونی اقدامات کے باوجود روس کو کسی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اسی لیے وہ کھلے عام اولمپکس قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ انھیں نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

پچھلے دس برسوں میں روس نے ڈوپنگ اسکینڈل کو چھپا یا۔ 2014 کی اولمپکس میں ان کی ہوم ٹیم چیٹنگ کرتے ہوئے پکڑی گئی لیکن اسے بھی چھپا لیا گیا۔ ان سب کے باوجود انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی اور باخ نے نرم ترین سزا دینے سے بھی گریز کیا۔ اور اب بیجنگ میں یہ تیسرا اولمپکس ہے،جس میں روس کو فنی بنیادوں پر اولمپکس میں شرکت سے نااہل قرار دینا چاہئے تھا لیکن اس کے باوجود سو سے زائد روس کے ایتھلیٹ روسی کلر یونیفارم کے ساتھ اس اولمپکس میں حصہ لے رہے ہیں اور ناروے کےبعد سب سے زیادہ میڈل روس ہی جیت رہا ہے۔

باخ جب سے اولمپکس کمیٹی کے سربراہ ہیں ، انھوں نے روس کو اولمپکس میں شامل رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے ۔ ان کا جواز یہ ہے کہ روس کی نئی نسل کے کھلاڑیوں کو ان کے پرانے کھلاڑیوں کی غلطیوں کی وجہ سے اولمپکس میں شرکت سے نہیں روکنا چاہے۔

گلوبل ایتھلیٹکس ایکٹیوسٹ گروپ کے راب کولر نے جمعہ کو کہا کہ یہ قیادت کی کمزوری ہے کہ کھلاڑیوں کے منتظیمن اپنے ایتھلیٹ کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر لوگوں کا یہ ردعمل ہی ہے جس کی وجہ سے آئی او سی کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ روس کی ایتھلیٹ اینا شیرباکوا نے سونے کا تمغہ ، ایلیگزنڈرا ٹروسوا نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا او ر کمیلا والیوا چوتھی پوزیشن پر آئیں ۔

بیجنگ اولپمکس میں جب کھلاڑیوں کے اسکور کا اعلان ہورہا تھا تو ٹروسوا اور والیوا رورہے تھے ، ٹروسوا نے سترہ سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس کےبعد لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ کہ ایتھلیٹ بچوں پر اتنا زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ یوں ریٹائرمنٹ لے کر بھاگنے پر مجبور ہوجائیں۔ کھلاڑیوں کی ذہنی صحت اور بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اسپورٹس کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ شاید اسی وجہ سے باخ کو اس واقعہ پر اپنا ردعمل دینا پڑا۔

(اس خبر کا مواد خبررساں ادارےاے پی سےلیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG