افغانستان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے حال ہی میں لندن کانفرنس ہوئی تھی ،جس میں کچھ طالبان لیڈروں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکال کر ان سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ افغانستان کی ترقی اور استحکام کے لیے معاشی کوششوں میں تیزی لانے کے لیے بھی کہا گیاہے۔ اوباما انتظامیہ ، جنگ سے تباہ حال اس ملک میں اپنی توجہ زراعت پر مرکوز کیے ہوئے ہے اور عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کی صوت حال میں بہتری لانے کے لیے زراعت کے شعبے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنابہت اہم ہے۔
مغربی صوبے ہرات کے کسان ایک پوست کے پھولوں کی بجائے ایک دوسری قسم کے پھولوں کی تجارت کر رہے ہیں۔ جس زمین پر کبھی پوست اگتی تھی اب وہاں زعفران کاشت کیا جاتا ہے۔
حاجی محمد اکبر کو زعفران کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ انہیں افغان حکومت کی طرف سے سول میڈل آف آنر دیا گیا کیونکہ وہ ہرات کے پہلے کسان تھے جنہوں نے پوست کی کاشت ترک کی۔وہ کہتے ہیں کہ میں پوست کاشت کرتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگوں کے لیے بری چیزہے اور غیر قانونی ہے۔یہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔زعفران کی کاشت شروع کرنے کے بعد سے میں نے پوست کاشت نہیں کی۔
افغانی زعفران بہترین کوالٹی کی بنا پر شہرت حاصل کر رہی ہے۔اور اس کی قیمت بھی اچھی ہے۔ ایک کلو زاعفران سے افغانستان میں تین ہزار امریکی ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اس وجہ سے یہ فصل پوست کے برابر منافع دیتی ہے۔
جنوبی ہلمند میں حکومت گندم کے کاشتکاروں کو کم نرخوں پرکھاد اور بیج مہیا کر رہی ہے۔ اور اسی طرح افغانستان کی پہلی جوس فیکٹری کے بارے میں اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ پچاس ہزار کسانوں سے سیب، انار اور خوبانی خریدے گی۔
افغانستان میں پوست کے کاشتکاروں کو قانونی فصلوں کی کاشت کی طرف راغب کرنے کی مہم کئی برسوں سے چل رہی ہے۔
مگر صدر اوباما کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی ایلچی رچرڈ ہال بروک کہتے ہیں کہ یہ پراجیکٹس بش انتظامیہ کی حکمت عملی کا بہت چھوٹا سا حصہ تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ زرعی ترقی سیکورٹی کے بعد سب سے اوپر ہے۔کیونکہ اسی فیصد سے زیادہ محنت کش زراعت کے شعبے سے ہیں۔
انٹرنیشنل کراسس گروپ کے مارک شنائڈر کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھا قدم ہے۔ان کا کہناہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو اس سے عوام کی سوچ اس بارے میں تبدیل ہو گی کہ ان کی منتخب حکومت اور عالمی برادری ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔
امریکہ افغان کاشتکاروں کی مدد کے لیے ماہرین بھیج رہا ہے تاکہ وہ بہترین فصل کا انتخاب اور زیادہ کاشت کر سکیں۔مگر شنائڈر کا کہنا ہے کہ ملک کے وہ حصے جو مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں نہیں وہ بھی ماہرین کے لیے محفوظ نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ وہاں جا سکتے ہیں۔ وہاں سے آ سکتے ہیں مگر وہاں رہ نہیں سکتے۔اس طرح سے ترقیاتی کام نہیں ہو سکتے۔
اس کے علاوہ ملک میں انفرا سٹرکچر نہیں ہے۔یہ کہنا ہے حاجی محمد ہاشم کا جو کہ ہلنمد میں گندم کے کاشتکار ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہماری سڑکیں اچھی نہیں ہیں اس لیے ہم اپنی اجناس منڈی میں نہیں لے کر جا سکتے۔
موجودہ مشکلات کے پیشِ نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان کاشتکاروں کو پوست کی پیداوار روکنے اور افغانستان کی زراعت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
مقبول ترین
1