عراق میں شدت پسند گروپ داعش سے موصل کا قبضہ چھڑانے کے لیے عراقی فورسز حتمی کارروائی کے تیاریاں تقریباً مکمل ہونے جا رہی ہیں اور حالیہ ہفتوں میں 62 ہزار شہری موصل سے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔
امریکی اور عراق حکام کے درمیان موصل سے شہریوں کے محفوظ انخلا کے راستوں کے تعین اور سرکاری زیر انتظام شہریوں کی جانچ پڑتال کے سینٹرز بنانے پر بات چیت ہوئی ہے لیکن امدادی گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے ناکافی تیاریوں کے اشارے ملے ہیں۔
ان گروپوں کا کہنا ہے کہ عراقی فوج کے منصوبہ ساز موصل کو پوری طرح سے بند کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی یہاں سے نکلنے کے قابل نہ ہو سکے۔
ہیومن رائٹس واچ کی عراق کے لیے محقق بلقیس ولی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسی باتیں سنی جا رہی ہیں کہ موصل آپریشن کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے اور فوج ایک ایسے آپریشن کی بات کر رہی ہے کہ جس میں مقامی آبادی یہاں محصور ہو کر رہ جائے گی۔
"وہ موصل میں شہریوں سے کہہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے دروازوں پر سفید پرچم لگائیں اور وہیں رہیں۔"
موصل سے نکلنے والے شہریوں کی دیکھ بھال کرنے والی ناروے کی ایک امدادی تنظیم "نارویجیئن رفیوجی کونسل" نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا ہے اور اس کے ایک عہدیدار وولفگینگ گریسمان کہتے ہیں کہ "لوگوں کو بچ نکلنے کے لیے محفوظ راستوں کی نشاندہی نہیں کی گئی۔"
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑے انسانی بحران کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
"ہمیں توقع ہے کہ جب لڑائی شدت اختیار کرے گی تو لاکھوں لوگ یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ محفوظ راستوں کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ فائرنگ کے تبادلوں میں پھنس سکتے ہیں اور ایسے میں ہم بھی ان تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوں گے۔"
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق موصل میں 15 لاکھ کے لگ بھگ لوگ آباد ہیں اور حکام کو توقع ہے کہ لڑائی شروع ہوتے ہی یہاں سے تقریباً دو لاکھ افراد نکل سکتے ہیں۔