رسائی کے لنکس

ایڈز کی ادویات سے متعلق طبی ماہرین کی تشویش


ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ دواؤں کے پیٹنٹ کے مسئلے کا حل موجود ہے، لیکن یہ سیاسی حل ہوگا۔

ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج کے لیے جو دوائیں استعمال کی جاتی ہیں انہیں اینٹی ریٹرووائرلز کہتے ہیں یعنی وہ دوائیں جو ریٹرووائرسز یعنی ایڈز کے وائرس کے خلاف مؤثر ہوتی ہیں ۔ اس قسم کی جو زیادہ مؤثر جدید ادویات تیار کی گئی ہیں، ان کے استعمال میں بہت بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ وہ کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں کے لیے بہت مہنگی ہیں کیوں کہ پیٹینٹ کی قانونی پابندیوں کی وجہ سے انہیں ہر ملک تیار نہیں کر سکتا۔ ایڈز کی انیسویں بین الاقوامی کانفرنس میں، طبی ماہرین کے ایک گروپ نے دواؤں کی قیمتوں اور پیٹنٹ کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔

ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی تنظیم جسے ایم ایس ایف بھی کہتے ہیں، 23 ملکوں میں ایچ آئی وی/ ایڈز کے تقریباً 220,000 مریضوں کا علاج کرتی ہے ۔ میڈیکل کوآرڈینیٹر نیتھن فورڈ کہتے ہیں کہ ایڈز کی سستی دواؤں کا رجحان ختم ہو رہا ہے ۔ ’’بعض پرانی اینٹی ریٹرووائلرز یا اے آرویز کی قیمتوں میں گذشتہ دہائی کے دوران زبردست کمی ہوئی ہے، لیکن زیادہ جدید دوائیں جو ایسے مریضوں پر استعمال کرنا پڑتی ہیں جن کو پہلے اور دوسرے درجے کی دواؤں سے فائدہ نہیں ہوتا، انتہائی مہنگی ہیں۔ یعنی پہلے درجے کی دواؤں کے مقابلے میں دس گنی بلکہ بیس گنی مہنگی ۔‘‘

فورڈ کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں جدید دواؤں کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔’’عالمی ادارۂ صحت اور دوسرے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ایسے مریضوں کو جنہیں ابتدا ہی میں پہلے درجے کی دواؤں سے فائدہ نہیں ہوتا، ان زیادہ طاقتور اور کم زہریلی دواؤں سے فائدہ ہو سکتا ہے ۔ اہم چاہتے ہیں کہ علاج کے شروع میں ہی ہم انہیں یہ جدید دوائیں دے سکیں۔‘‘

ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سمجھوتوں اور پیٹینٹ کے ضابطوں کے تحت جینرک ادویات تیار نہیں کی جا سکتیں۔ ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی آمدنی والے ملک اب پیٹنٹ کی ایسی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ان دواؤں کی قیمتیں ان کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔

لینا مینگاہنی بھارت میں جینیرک ادویات تیار کرنے والے ایک بڑے ادارے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز ایکسس کیمپین کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ایچ آئی وی /ایڈز کے لیے زیادہ جدید اور مہنگی دواؤں کی ضرورت ہے، خاص طور سے اس لیے کہ بہت سے مریضوں کو ایڈز کے ساتھ ٹی بی کی ایک قسم ایکس ڈی آر۔ٹی بی کا انفیکشن بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک نئی قسم کی ٹی بی ہے جس پر عام ادویات اثر نہیں کرتیں۔

’’ہم ممبئی میں کام کر رہے ہیں جہاں بھارت میں سب سے پہلے ایڈز کے کیس ہوئے تھے۔ ممبئی میں یہ وبا بڑی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اب ایڈز کے ایسے مریض آتے ہیں جنہیں ایکس ڈی آر ٹی بی بھی ہوتی ہے۔ لیکن ایسے مریض بھی ہیں جنہیں پہلی اور دوسری درجے کی دواؤں سے فائدہ نہیں ہو رہا ہے اور انہیں جدید دواؤں کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں تیسرے درجے کی صرف ایک دوا کے لیے2,100 ڈالر سے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہم ڈاکٹر ہیں اور ہم اخلاقی طور سے ان مریضوں کو علاج کے بغیر واپس نہیں بھیج سکتے۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کو ایڈز کی پیٹنٹ والی دوائیں استعمال کرنی پڑی ہیں۔’’بھارت میں یہ دوائیں تیار ہو سکتی ہیں لیکن ان پر پیٹنٹ کی پابندی ہے۔ اب بھارت کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے املاک ِ دانش کے ضابطوں کے تحت ، ان دواؤں تک رسائی میں سخت دشواری پیش آ رہی ہے۔‘‘

املاکِ دانش کے قانون کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس سے علم و دانش پر اجارے داری قائم ہو جاتی ہے اور ایجاد و اختراع اور مسابقت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیٹنٹ والی کمپنیوں کو اس سے مالی فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن سماجی طور پر یہ نقصان دہ ہے ۔

بھارت نے 1995 میں ورلڈ ٹریڈ ایگریمنٹ پر دستخط کیے تھے جس پر اسے 2005 میں عمل در آمد کرنا تھا ۔ اس سمجھوتے کے تحت دواؤں کا پیٹنٹ ضروری ہے، اور انہیں جنیرک طور پر تیار نہیں کیا جا سکتا ۔
لیکن بھارت نے، پہلی بار ، مارچ میں کینسر کی ایک دوا کے پیٹنٹ کو نظر انداز کرنے کے لیے، ایک لازمی لائسنس جاری کیا۔

بعض حالات میں، شاید صحت کی کسی امرجینسی میں، ملکوں کو پیٹنٹ کی خلاف ورزی کرنے اور جینرک ادویات تیار کرنے کی اجازت ہے۔ جس کمپنی کے پاس اس دوا کا پیٹنٹ ہوتا ہے، اسے کچھ معاوضہ دے دیا جاتا ہے ۔ تا ہم یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر قانونی جنگیں شروع ہو سکتی ہیں۔

ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس اقدام سے ایڈز کی نئی دواؤں تک رسائی کی ایک روایت قائم ہو سکتی ہے ۔ چین نے بھی اب ایک طریقہ بنایا ہے جس کے ذریعے پیٹنٹ کی پابندی ختم کی جا سکتی ہے ۔

آج کل تقریباً 30 دوائیں ہیں جو ایچ آئی وی/ ایڈز کے علاج میں استعمال ہو رہی ہیں۔ نئی دواؤں کی ضرورت ہے نہ صرف اس لیے کہ ایڈز کے وائرس میں ان دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا ہو گئی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ ان دواؤں کے زیریلے اثرات بہت سخت ہوتے ہیں۔ مثلاً ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز کی بعض ادویات مریض کے چہرے کو مسخ کر سکتی ہیں کیوں ان سے جسم میں چربی کے ذخائر متاثر ہوتے ہیں۔

دوا ساز کمپنیاں کہتی ہیں کہ انہیں ان دواؤں کی تیار ی کی لاگت کو واپس حاصل کرنا ضروری ہے تا کہ وہ نئی دواؤں پر تحقیق اور ان کی تیاری میں پیسہ لگا سکیں ۔ ایم ایس ایف کے میڈیکل کوآرڈینیٹراس خیال سے متفق ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنا سرمایہ ان تمام ملکوں سے واپس نہیں لے سکتے جہاں یہ دوائیں استعمال ہوتی ہیں۔

’’ہم جانتے ہیں کہ دوا ساز کمپنیاں اپنا پیسہ ترقی یافتہ ملکوں سے واپس لیتی ہیں۔ اگر آپ کسی ایسے ملک میں کوئی دوا اتنی مہنگی بیچ رہے ہیں جو کوئی خرید ہی نہیں سکتا، تو آپ کو ئی منافع نہیں کما سکتے، کیوں دوا تو بک ہی نہیں رہی ۔ لہٰذا ان کمپنیوں نے جو پیسہ تحقیق اور دوا کی تیاری میں لگایا ہوتا ہے، وہ مالاوی یا مزمبیق یا کینیا سے ، بلکہ جنوبی افریقہ سے بھی واپس نہیں مل سکتا ۔ وہ یہ پیسہ شمالی امریکہ اور یورپ سے وصول کرتی ہیں۔‘‘

ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ دواؤں کے پیٹنٹ کے مسئلے کا حل موجود ہے، لیکن یہ سیاسی حل ہوگا۔
XS
SM
MD
LG