14 فروری دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کے نام سے منسوب ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اسے کبھی مغربی روایت کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے اورکبھی بے راہ روی اور بیہودگی کا نام دے کر۔ اکیسویں صدی ہے اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا سمٹ چکی ہے۔ مغرب میں منایا جانے والا ویلنٹائنز ڈے مشرق میں بھی پیار کرنے والوں کو بھا گیا ہے اور زمانہ کیا کہتا ہے اس سے قطع نظر محبت کرنے والے اپنے اپنے طور پر اس روز اپنی محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
اس ہفتے کا ع-مطابق ویلنٹائنز ڈے کے حوالے سے ہی پیش کیا گیا جس میں پاکستان کی مقبول سیلبرٹی جوڑی سنیتا مارشل اور حسن احمد نے اپنی محبت، اس محبت کو پانے میں پریشانی اور پھر محبت پا لینے کے بعد کی مشکلات کا قصہ سنایا۔ پروگرام کی نئی قسط ہر پیر کو پاکستان میں رات کے نو اور بھارت میں ساڑھے نو بجے وائس آف امریکہ کے فیس بُک اور یو ٹیوب چینلز پر جاری کی جاتی ہے۔ آپ یہ پروگرام نیچے دیے گئے لنک پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
دو لوگوں کے درمیان کشش اور محبت کوئی مغربی نظریہ نہیں۔ چاہنا اور چاہے جانا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
مغرب میں اگرمحبت آج سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منسوب ہے توعرب تاریخ میں لیلیٰ مجنوں، فارس میں شیریں فرہاد اور خسرو کے نام کی بازگشت سنائی دیتی ہےاوراطالویوں کے لیے رومیو جولیٹ محبت کا استعارہ ہیں۔ پھر مصر کی ملکہ کلیوپیٹرا کی زندگی اپنے وقت کی طاقتور ترین ملکہ کی کہانی بیان کرتی ہے جو ایک رومی جنرل پر اپنا دل ہار بیٹھی۔ غرض دنیا کا کونسا ایسا خطہ ہے جہاں محبت کی کہانیاں سنی اور سنائی نہیں جاتیں۔
خود برصغیر کی ثقافت محبت کرنے والوں کی داستانوں سے گندھی ہے۔ آج یہاں بخارا کے تاجر عزت بیگ اور تلہا کمہار کی بیٹی سوہنی کی محبت کی داستان تاریخ میں 'سوہنی ماہیوال' کے نام سے امر ہے۔
شہداد پور سندھ میں سوہنی کے مزار پر آج بھی لوگ اپنی محبت پانے کی دعائیں مانگنے جاتے ہیں۔
یہی علاقہ جہاں آج پاکستان قائم ہے، اسی سرزمین پر مرزا صاحباں ، ہیر رانجھا، سسی پنوں جیسی محبتوں نے بھی جنم لیا مگرغور کریں تو مغرب ہو یا مشرق محبت کی یہ تمام لازوال داستانیں محبت کرنے والوں کے خون سے لکھی گئی ہیں اور ان سب ہی کا انجام المناک ہوا۔
ایسا کیوں ہے کہ ہیپی اینڈنگز ڈزنی کی فلموں میں ہی ملتی ہیں؟ کیوں حقیقی دنیا میں محبت کو مر کر ہی قبولیت ملتی ہے؟
موجودہ دور میں ایسے بہت سے جوڑے ہیں جن کی محبت روایات کے خلاف نہ صرف پروان چڑھی بلکہ زمانے کی مخالفت کے باوجود ان کی محبت کا سفر کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ ایسا ہی ایک جوڑا مسلمان اداکار حسن احمد اور مسیحی ماڈل اور اداکارہ سنیتا مارشل کا ہے جو اس ہفتے وائس آف امریکہ کے ویب شو ع-مطابق میں مہمان تھے۔
اب سے اٹھارہ سال پہلے پانچ سال تک ایک دوسرے کو جاننے کے بعد جب اس جوڑے نے شادی کا فیصلہ کیا تو زمانے کی قبولیت کی بات تو ایک طرف پہلے تو دونوں کے گھر والوں نے ہی اس رشتے کو مسترد کر دیا۔
بڑے تردد کے بعد والدین تیار ہوئے، شادی ہو گئی مگر آج بھی لوگ ان کے رشتے کے حوالے سے طرح طرح کے ناپسندیدہ سوالات کرتے ہیں۔
حسن احمد اور سنیتا مارشل کراچی میں اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنی زندگی ہنسی خوشی بسر کررہے ہیں مگر زمانے کے چبھتے سوالات اکثر ان کی چھوٹی سی ہنستی بستی دنیا کو متلاطم کر جاتے ہیں۔
سنیتا کہتی ہیں بطور ماں یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ بچے مسلمان مذہب اختیار کریں گے مگر حسن کے مطابق مسلمان اکثریت والے معاشرے میں لوگ اب بھی ان سے یہ سوال کر جاتے ہیں کہ بھلا میاں بیوی کا یہ رشتہ جائز ہی کیسے ہے؟
حسن بتاتے ہیں کہ سنیتا سے شادی کے فیصلے پر ایک دہائی تک انہوں نے لوگوں کی بہت کڑوی باتیں برداشت کیں جن میں اکثر نسل پرستانہ جملے بھی ہوتے تھے۔ مگرحسن کہتے ہیں کہ لوگ تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہیں گے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اپنی پسند سے شادی کرنے والوں کا آپس کا رشتہ ہمیشہ خوشیوں، گلابوں اور خوشبوؤں سے معطر نہیں ہوتا۔ یہ بات دونوں ہی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی زندگی شادی سے پہلے کے رومانس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس میں کبھی ہنسی مذاق، خوشی اور قہقہے سنائی دیتے ہیں تو کبھی ان کی جگہ رنجشیں، لڑائی جھگڑے اور آنسو لے لیتے ہیں۔
حسن اور سنیتا کا رشتہ بھی کچھ مختلف نہیں رہا لیکن حسن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شادی کی ابتدا میں وہ زن بیزار، انا پرست، عورت پر تسلط قائم رکھنے والی سوچ کے حامل مردوں کی طرح تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اس کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنے رشتے اور اپنی محبت کی خاطر اپنے اطوار میں تبدیلیاں کیں۔
دوسری طرف سنیتا کہتی ہیں کہ شادی کے ابتدائی سال بہت اہم بھی ہوتے ہیں اور نازک بھی۔ اگر یہ وقت ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھ کر گزار لیا جائے تو رشتہ مضبوط ہوتا جاتا ہے ورنہ پھر مشکلات شروع ہو جاتی ہیں۔ سنیتا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر شادی ایڈجسمںٹ اور سمجھوتہ مانگتی ہے۔
شادی تو محبت کی ہے تو پھر ویلنٹائنز ڈے بھی مناتے ہیں؟ اس سوال پر حسن احمد جواب دیتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اس دن کے حوالے سے بڑی تنقید ہوتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ لوگوں نے ہر چیز پر تنقید کرنا اپنی عادت ہی بنا لی ہے اور ان کی نظر میں یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے پیاروں سے محبت کا اظہار ایک خاص طریقے سے کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔
سنیتا اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان دونوں کے درمیان محبت تو ہے ہی مگر جب حسن انہیں اس دن پھول لا کر دیتے ہیں تو انہیں بہت خاص محسوس ہوتا ہے۔ سنیتا کے خیال میں آپ روز روز اپنے پیاروں کو پھول لا کر نہیں دیتے تو پھر اس دن پھول دینا ایسا ہے جیسے محبت کی تجدید کی جا رہی ہو۔
سنیتا یہ بھی کہتی ہیں کہ محبت ضروری نہیں مرد اور عورت کے درمیان ہی ہو۔ وہ بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ حسن اس دن اپنی والدہ کے لیے بھی پھول لاتے ہیں اور اسی دن اپنے گھر کام کرنے والی ملازمہ کو بھی پھول دے کر ان کی خدمات کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حسن اور سنیتا ایک ایسا جوڑا ہیں جسے ہمیشہ ہی لوگوں کی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ لوگ ان کے رشتے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اس کی پرواہ کیے بغیر یہ دونوں اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کی خوشی ان کی آنکھوں سے عیاں ہے۔
اسی طرح، لوگ ویلنٹائنز ڈے کے بارے میں منفی سوچ رکھیں یا مثبت اس سے ان دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حسن احمد اور سنیتا مارشل ویلنٹائنز ڈے مناتے بھی ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے پیار کا اظہار کر کے خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے یہ ان کا مسئلہ نہیں کیونکہ جیسا کہ حسن نے گفتگو میں پہلے کہا تھا،
کچھ تو لوگ کہیں گے۔ لوگوں کا کام ہے کہنا۔۔۔