ہوائی جہاز سے سفر کرنے کےلئے مسافروں کو سیکیورٹی کےجن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُس پر شکاگو ٹریبیون اخبار ایک ادرایے میں لکھتا ہے۔ کہ آپ جا نتے ہیں۔ کہ آپ کو شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے، جُوتے اُتارنے پڑتے ہیں۔سکّے ، چابیاں اور سیل فون وغیرہ ڈبے میں ڈالنے پڑتے ہیں، اور پھر میٹل ڈِٹیکٹر
سے گُزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اخبار کہتا ہے ، کہ حالات اس سے بھی ابتر ہو چُکے ہیں۔ بُہت ساری ائیر پورٹوں پر حالیہ ہفتوں کے دوران تصویریں کھینچنے والے ایسے اسکینر
نصب کئے گئے ہیں۔جو آپ کے کپڑوں کے اندر جھانکتے ہیں ۔ یا یوں سمجھئے کہ آپ کو ننگا دیکھتے ہیں۔اور اگر آپ کو سکینر سے گزرنا پسند نہیں ، تو اس کے بدلے میں جو طریقہ دستیاب ہے۔وُہ بھی شاید پ کو پسند نہ آئے۔کیونکہ تلاشی لینے والا ایجنٹ ہاتھوں سے آپ کے پُورے جسم کی تلاشی لے گا، جس میں چھاتی رانیں وغیرہ شامل ہیں۔
اس نئے طریق کار کی ضرورت اُس مسافر کے پکڑے جانے کے بعد محسوس کی گئی۔ جس نے اپنے جانگئے میں آتشیں مادّے کا سفُوف چُھپا رکھا تھا۔اخبار کہتا ہے ، کہ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اِن نئے طریقوں کی بدولت ممنوعہ سفُوف کا سُراغ لگایا جا سکے ۔یُوں بھی پائیلٹوں اور فلائٹ اٹینڈوں
نے تلاشی کے اِن طریقوں کے خلاف احتجاج کر رکھا ہے۔ اور ان طریقوں کا جواز اُسی صورت میں بن سکتا ہے اگر اِن کی مدد سے دہشت گردوُں کو واقعی روکا جا سکے۔ کیونکہ اگر کوئی دہشت گرد گھر سےعزم کر کے نکلاہے ، تو وُہ ٹکٹ کاؤنٹر یا مسافروں کی قطار میں گُھس کر دہماکہ کر کے تباہی مچا سکتا ہے۔
شکاگو ٹریبیون کہتا ہے کہ وفاقی حکُومت کو عامتہُ الناس کی سلامتی اور اُن لوگوں کے انسانی وقار کے تقاضوں کے درمیان توازُن پیدا کرنا ہوگا۔جِن سے کوئی خطا سرزد نہ ہوئی ہو۔اس وقت موخِرالذکر مقصد پسِ پُشت پڑ گیا ہے۔ لیکن لاکھوں سفر کرنے والے اس نئے طریقے کا مزا چکھ لیں، تو پِھر شاید یہ کیفیت بدل جائے گی۔