یمن میں سرگرم 'القاعدہ' کی شاخ نے تصدیق کی ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں تنظیم کا ایک مرکزی رہنما ہلاک ہوگیا ہے۔
'القاعدہ' کی جانب سے انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ابراہیم الربیش یمن کے جنوبی ساحلی شہر المکلا کے نزدیک پیر کو ایک امریکی ڈرون کے حملے میں ہلاک ہوئے۔
الربیش کا شمار یمن میں سرگرم القاعدہ کی مقامی شاخ کے اہم نظریاتی رہنما اور مذہبی مشیر کے طور پر ہوتا تھا جس کی تحریریں اور خطابات 'القاعدہ' کے حامی حلقوں میں خاصے مقبول تھے۔
امریکہ نے الربیش کو 2006ء میں گوانتانامو کے حراستی مرکز سے نکال کر سعودی عرب کے حوالے کیا تھا جہاں اسے شدت پسندی کا شکار قیدیوں کی بحالی کے ایک پروگرام سے گزارنے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
رہائی کے بعد ابراہیم الربیش یمن فرار ہوگیا تھا اور بعد کے برسوں میں القاعدہ میں انتہائی سرگرم رہا۔امریکی حکام نے گزشتہ سال اکتوبر میں اس کی گرفتاری میں مدد دینے والے کے لیے 50 لاکھ ڈالر تک انعام کا اعلان کیا تھا جب کہ دسمبر میں اس کا نام بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔
'القاعدہ' کی جانب سے منگل کی شب جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ الربیش نے "اللہ کی راہ میں دو دہائیاں ایک مجاہد کی حیثیت سے امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے گزاریں"۔
امریکی حکام نے تاحال ڈرون حملے میں الربیش کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اگر اس اطلاع کی تصدیق ہوئی تو یہ یمن میں سرگرم شدت پسند تنظیم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا جو اندرونِ ملک جاری محاذ آرائی اور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھا کر خود کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران یمن میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں 'القاعدہ ان عریبین پینی سولا' کے لگ بھگ نصف درجن رہنما مارے جاچکے ہیں۔