ایک عرصے تک القاعدہ اور اس کی اعلیٰ قیادت افغانستان اور پاکستان میں متحرک رہی ہے مگر ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت افریقہ کے کئی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے۔ اسی وجہ سے حال میں صومالیہ سے لے کر مالی اور نائجریا تک پر تشد دواقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ایسے کئی شواہد سامنے آئے ہیں کہ اتحادی افواج کی جنوبی ایشیا میں مذہبی انتہا پسند گروہوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے القاعدہ کی مرکزی قیادت روایتی پناہ گاہوں سے دور دوسرے ٹھکانوں کی تلاش میں ہے۔
مرکزی قیادت کا مقصد اب افریقہ میں ہم خیال گروہوں کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنا ہے ۔مثال کے طور پر الشباب کے ساتھ یا مراکش اور الجریا میں قدم جمانے کے لئے وہاں پہلے سے موجود انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا۔
اس ماہ کے شروع میں صومالیہ کے دارالحکومت موگادیشو میں ایک خاتون خود کش بمبار نے ایسی جگہ پر حملہ کیا جب ملک کے وزیر اعظم عبدی ولی محمد علی صومالی نیشنل تھیٹر کے افتتاح کے لئے خطاب کے لئے اٹھے تھے۔ حملے میں آٹھ افرازد ہلاک ہوئے اور اس کی ذمہ داری الشباب نے قبول کی تھی۔
ان گروہوں کی لئے پہلی چیز تو نئے افراد کو ساتھ ملانا ہے ۔ ایسے غیر ملکی جو مقامی ایجنڈے کی بجائے ٕ مختلف ملکوں میں اپنے مقاصد کے لئے تگ و دو کر رہے ہوں۔
نائجریا میں بوکو ہارمن نامی گروہ نے حالیہ کچھ مہینوں میں مسیحیوں اور حکومت کے خلاف حملے کئے ہیں ۔ انہی میں سے ایک گزشتہ ماہ جاس کے ایک چرچ پر حملہ تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ مغربی اور مشرقی افریقہ میں حالیہ تنازعات سےان عسکریت پسند گروہوں کو زیادہ پھلنے پھولنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ عسکریت پسند گروہ افریقہ کے دوسرے مسلمان ممالک میں بھی اپنی جگہ بنا لیں گے۔
رائل افریقن سوسائٹی کے ڈائریکٹر رچرڈ بوڈن کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر نائجریا یا مالی میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ لوگ انتہا پسندی سے متاثر ہیں مگر ان کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے سیکھ ضرور رہے ہیں مگر مل کر کا م نہیں کر رہے۔
بے شک عسکریت پسندوں سے نائجریا اور مالی میں خطرات زیادہ ہو رہے ہیں ، ماہرین یہ بھی کہتے ہیں افریقہ میں عسکریت پسندوں کی تربیت گاہوں اور حمایت سے مغربی ممالک میں حملوں کے خطرے کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔