سال دو ہزار چھ کی بات ہے شادی کے بعد مجھے دبئی منتقل ہونا تھا۔ آس پاس لوگوں نے مشورہ دیا کہ شناختی کارڈ پر نام تبدیل کروالو ورنہ سپاؤز ویزہ ملنے میں مشکل ہوگی۔ چونکہ ہمیں آگے امریکی امیگریشن کے لیے بھی اپلائی کرنا تھا اس لیے میں نے اس تجویز پہ عمل کیا تاکہ نام سے ہی ہمارا ایک فیملی ہونا ثابت ہو اورمستقبل میں کسی قسم کی دفتری پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ سچ بات ہے میں نے اس بارے میں زیادہ تحقیق کی ہی نہیں مگر وقت کے ساتھ یہ سبق سیکھا کہ ایسا کرنے کی کوئی قانونی ضرورت نہیں تھی۔
میں نے اپنا نام نہ صرف نادرا کے ریکارڈ میں تبدیل کیا بلکہ اسی نام کو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنانے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
شاید آج کی ندا ایسانہ کرتی کیونکہ وقت،عمر اور شعور کے ساتھ میری سوچ بھی تبدیل ہو چکی ہے۔اس وقت ایسا کرنے کی وجہ یقیناً یہی رہی ہوگی کہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ تھی جہاں شادی کے بعد خواتین کا نام تبدیل ہونا ایک عام بات تھی۔ ٹی وی کے انہی خبرناموں میں جنہیں اب میں پڑھا کرتی تھی، نوعمری میں اپنی پسندیدہ ںیوزکاسٹرعشرت فاطمہ کو عشرت ثاقب بنتے بھی دیکھ چکی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میرے اس فیصلے پر چند ساتھیوں نے تنقید ضرور کی تھی، مگر میں نے اس وقت یہی کہا ہوگا 'میرانام، میری مرضی'۔
ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب دنیا سکڑ چکی ہے خواتین کے حقوق کی عالمی تحریک نے پاکستانی خواتین کو بھی قوت بخشی ہے۔ بہت سے سوالوں میں آج پاکستان کی عورت یہ بھی پوچھتی ہے کہ وہ نام جو اسے پیدائش پہ دیا جائے اسے ایک نکاح نامے پہ دستخط کرتے ہی تبدیل کر دیا جانا کیا درست ہے؟ کیا عورت کی اپنی کوئی پہچان نہیں؟ کیا عورت کوئی جائیداد ہے جس کی ملکیت پہلے باپ اور پھر شوہر کو مل جائے اور کسی" ٹائٹل ڈیڈ" کی طرح اس کا مالک تبدیل ہوجائے؟
سوشل میڈیا پر پاکستانی خواتین کے گروپس اور صفحات پر نظر ڈالیں تو جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد نام کی تبدیلی کو غیر ضروری سمجھتی ہے وہیں کئی خواتین کو نام تبدیل کرنے میں کوئی برائی نہیں لگتی مگر ان کا اصرار ہے کہ ایسا خودعورت کی مرضی سے ہو اور اسے یہ فیصلہ بغیر کسی زور یا زبردستی کرنےکا حق ہونا چاہیے۔
دبئی میں مقیم پاکستانی بینکر صالحہ عاطف کی شادی تئیس سال کی عمر میں ان کی پسند سے ہوئی۔ انہیں اپنے نام کے ساتھ اپنے ہونے والے شوہر عاطف کا نام سننے میں اچھا محسوس ہوتا تھا لیکن انہوں نے ایسا ہرگزنہیں سوچا تھا کہ وہ یہ تبدیلی اپنی شناختی دستاویزات پر بھی کریں گی۔ چونکہ شادی کے بعد انہیں ملائیشیا اورعمرے پرجانا تھا انہیں بھی قریبی افراد کی طرف سے یہی مشورہ دیا گیا کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر نام تبدیل کروا لیں کیونکہ اس سے ویزا مسترد ہونے کے امکانات تقریباً ختم ہو جائیں گے۔ دل سے وہ عاطف کو اپنا چکی تھیں اس لیے نام اپنانے میں بھی کوئی برائی نہ سمجھی اور اس طرح صالحہ اقبال سے صالحہ عاطف بن گئیں۔ صالحہ کو اپنا نام تبدیل ہونے پر آج کوئی افسوس تو نہیں مگر وہ سمجھتی ہیں اگر انہیں اس وقت آگاہی ہوتی توکم از کم دستاویزات میں نام تبدیل کرنے کی نوبت نہ آتی۔
ماہرعمرانیات اور جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین رضا کی رائے میں شادی کے بعد نام تبدیل کرنے کے اس رواج میں پدرشاہی نظام کا اثر ضرور نظر آتا ہے جہاں گھر کا سربراہ گھر کی خواتین کا سرپرست اور کفیل مانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ماضی میں یورپ میں جائیداد کے حقوق حاصل کرنے کے لیے اور امریکا میں ووٹ دینے کے لیے خواتین پر یہ قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ شادی شدہ ہونے پر شوہر کا نام ساتھ لگائیں لیکن پاکستان کا قانون ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرتا۔ ڈاکٹر نوشین رضا کے خیال میں بہت سی خواتین آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اسے ضروری تصور کرلیتی ہیں۔ 'نادرا میں صرف ازدواجی حیثیت اپڈیٹ کرا کر شوہر کے خانے میں شوہر کے نام کا اندراج کرانا ہوتا ہے نا کہ اپنا نام تبدیل کرانا ۔ اس معاملے میں نادرا کو بھی شہریوں کوتمام ضروری معلومات دینی چاہئیں' ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کئی بار نام تبدیل کرنے میں لڑکیوں کی اپنی خوشی بھی شامل ہوتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپنے نام کیساتھ شوہر کا نام جوڑنے میں اکثر لڑکیوں کو رومانویت کا عنصر نظرآتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نیا جوڑا معاشرے میں ایک خاندانی اکائی یا نئے فیملی یونٹ کے طور پر ابھرتا ہے ۔
'مگر عورتیں یہ کیوں نہیں سوچتیں کے شادی ناکام بھی ہو سکتی ہے، شوہر کا انتقال بھی ہو سکتا ہے اور آپ دوسری شادی بھی کرسکتی ہیں. آپ کتنی بار اپنا نام تبدیل کروائیں گی؟' یہ کہنا ہے علوینہ سرور کا جن کی شادی دو ہزار بارہ میں آصف سے ہوئی۔ علوینہ اپنی زندگی کے پچیس سال ایک نام کے ساتھ گزار چکی تھیں، تعلیم، فن و ہنر اور کیرئیر میں یہی نام ان کی پہچان تھا۔ شادی کے بعد انہوں نے اسے تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر شوہر کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن نادرا کے دفتر میں یہ سوال ان سے ضرور کیا گیا کہ ' کیا واقعی نام تبدیل نہیں کرانا؟' بعد میں چند رشتےداروں نے بھی نام تبدیل نہ کرنے پر تعجب کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر نوشین رضا کہتی ہیں جو مرد اس فیصلے میں اپنی بیوی کا ساتھ دیتے ہیں انہیں عموماً معاشرہ یا تو فیمینسٹ سمجھتا ہے یا پھر زن مرید۔ یہ دوسری صورتحال مردوں کے لیے پریشانی اور خفت کا باعث بھی بن سکتی ہے اوراس کا منفی اثر نئے رشتے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے اکثر مردوں کی بھی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ بیوی اپنے نام کیساتھ ان کا نام لگائے۔
اگرآپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ترقی یافتہ، روشن خیال اور فیمنزمکے ادوار کے حامل امریکہ یا برطانیہ میں معاملہ پاکستان سے مختلف ہوگا تو ایسا نہیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ میں اب بھی تقریباً ستر فیصد جبکہ برطانیہ میں نوے فیصد خواتین شادی کے وقت اپنے شوہر کا خاندانی نام اپناتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خواتین کی ایک بڑی تعداد خود کو فیمینسٹ بھی مانتی ہے۔ چند مشہور مثالوں میں ایک نام وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈسمتھ کا لیا جاسکتا ہے جوانسانی حقوق کی کارکن بھی ہیں، انہوں نے نہ صرف شادی شدہ زندگی میں اپنے نام کے ساتھ خان لگایا بلکہ طلاق کے ایک دہائی بعد تک خان نام ہی ان کی پہچان رہا۔
جہاں ہیلری کلنٹن، مشیل اوبامہ جیسی شخصیات نے شوہر کا نام اپنےنام کے ساتھ لگایا وہیں ایشوریا رائے بچن, پریانکا چوپڑا جونس اور جیڈا پنکٹ سمتھ جیسی مشہور اداکاراؤں نے اپنے شوہر کے خاندانی نام کو اپنے نام کےساتھ ہی جوڑ لیا۔ ادھر طلاق کے بعد دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص جیف بیزوس کی سابقہ اہلیہ مکنزی بیزوس پھر سے میکنزی اسکاٹ ہو چکی ہیں تو بل گیٹس کی سابقہ اہلیہ ملینڈا، اپنے سابقہ شوہر کا خاندنی نام برقرار رکھتے ہوئے درمیان میں اپنا شادی سے پہلے کا نام بھی واپس لے آئیں اور اب ملینڈا فرینچ گیٹس کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
گو کہ مغرب میں اب بھی خواتین کی اکثریت اپنے شوہر کا خاندانی نام اپناتی ہے مگرسست روی سے ہی سہی یہ شرح بتدریج کم ہورہی ہے۔ خصوصاً پختہ عمر کی وہ خواتین جو اب مالی طور پرآزاد ہیں, پروفیشنل اور سماجی حلقوں میں اپنی پہچان تبدیل کرنے کو غلط تصور کرتی ہیں۔