رسائی کے لنکس

طالبان کے مظالم کے زخم ابھی تازہ ہیں: کولمین


کولمین اور بوئیل اپنے بچوں کے ہمراہ، دوران قید لی گئی ایک تصویر (فائل فوٹو)
کولمین اور بوئیل اپنے بچوں کے ہمراہ، دوران قید لی گئی ایک تصویر (فائل فوٹو)

بوئیل نے دعویٰ کیا کہ انھیں دہشت گرد حقانی نیٹ ورک میں شامل ہونے کے لیے بھی مجبور کرتے رہے اور انکار کرنے پر انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔

پانچ سال تک طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں رہنے والی امریکی خاتون کیٹلان کولمین اور ان کے کینیڈین شوہر جوشوا بوئیل اپنی معمول کی زندگی تو شروع کر چکے ہیں لیکن اغوا کاروں کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم اب بھی ان کے ذہنوں پر نقش اور تکلیف کا باعث ہیں۔

اس جوڑے کو ان کے تین بچوں کے ہمراہ گزشتہ ماہ قبائلی علاقے سے پاکستانی فورسز نے ایک آپریشن کر کے بازیاب کرایا تھا اور حکام کے مطابق اس وقت اغوا کار اس خاندان کو افغانستان سے پاکستان منتقل کر رہے تھے۔

ایک امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں اس جوڑے نے ایک بار پھر اغوا کاروں پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے دورانِ تحویل انھیں تشدد جب کہ کیٹلان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

گزشتہ ماہ رہائی کے بعد جب اس جوڑے نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا تو طالبان کی طرف سے اس کی سختی سے تردید سامنے آئی تھی۔

اکتیس سالہ کیٹلان نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے ان پر تعینات کیے گئے بعض محافظ بچوں سے نفرت کرتے تھے اور انھوں نے متعدد بار اس بنا پر ان کے بڑے بچے کو زدوکوب کیا کہ وہ "ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا تھا یا بہت شور کرتا تھا۔"

ان کے بقول اگر وہ اس مار پیٹ میں مداخلت کرتیں تو یہ مسلح افراد انھیں بھی مارتے تھے۔

کیٹلان نے دعویٰ کیا کہ ان مسلح اغوا کاروں نے ان کا زبردستی اسقاطِ حمل کر کے پیدائش سے قبل ہی ان کی ایک بچی کو "قتل" کیا جب کہ بعد ازاں یہ بات ان مسلح افراد کے سینئرز تک پہنچانے کی کوشش کی پاداش میں انھیں جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بنایا گیا۔

"وہ (اغوا کار) یہی کہتے رہتے کہ اگر تم نے اسقاطِ حمل کے بارے میں کسی کو بتایا تو تمہارے ساتھ دوبارہ ایسے ہی ہو گا۔"

اس جوڑے نے 'اے بی سی نیوز' کو بتایا کہ اپنی بازیابی کے فوراً بعد انھوں نے اس بارے میں اس لیے بات کرنا شروع کی کیونکہ انھیں انصاف چاہیے اور امید ہے کہ طالبان کے خلاف ان "جنگی جرائم" کے ارتکاب پر مقدمہ چلایا جائے یا پھر انھیں قبائلی نظامِ انصاف کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

بوئیل نے دعویٰ کیا کہ انھیں دہشت گرد حقانی نیٹ ورک میں شامل ہونے کے لیے بھی مجبور کرتے رہے اور انکار کرنے پر انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔

"وہ چار مختلف اوقات میں میرے پاس گروپ میں شامل ہونے کی پیشکش لے کر آئے اور میں نے ان پر واضح کر دیا کہ میں اس کے بجائے قید میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔"

اس جوڑے کے ہاں دورانِ قید ہی تین بچوں کی پیدائش ہوئی۔ کیٹلان نے بتایا کہ وہ اپنا حمل اغوا کاروں سے چھپاتی رہیں اور زچگی کا عمل بوئیل نے کسی بھی معالج کے بغیر اکیلے ہی انجام دیا۔

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جس روز انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس کے ایک دن بعد قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

اب یہ جوڑا کینیڈا میں مقیم ہے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے انھیں امید ہے کہ ان کے بچے ایک بھرپور خوش وخرم زندگی گزاریں۔

XS
SM
MD
LG